لیبیا کے انقلاب کا سب سے نمایاں چہرہ، مصطفیٰ محمد عبدالجلیل
24 اگست 2011کچھ ہی عرصہ پہلے تک ماہر قانون مصطفیٰ محمد عبدالجلیل لیبیا سے باہر ایک بڑی حد تک غیر معروف شخص تھے۔ قومی عبوری کونسل کے موجودہ چیئرمین قذافی حکومت کے تحت تقریباﹰ چار سال وزیر انصاف رہنے سے پہلے ایک طویل عرصے تک طرابلس میں ماہر قانون اور جج کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ عبدالجلیل سن 2007 سے 2011 کے اوائل تک وزیر انصاف رہے۔
اس دوران وہ قذافی کے وفادار ساتھی کی بجائے اپنے ذاتی سیاسی خیالات رکھنے والے شخص کے طور پر سامنے آئے۔ سن دو ہزار نو میں ایک سوال کے جواب میں انچاس سالہ عبدالجلیل کا کہنا تھا کہ لیبیا کی مشہور جیل ابو سلیم میں تین سو قیدی بغیر کسی قانونی کارروائی کے قید ہیں۔ اپنے اس بیان کے بعد وہ قذافی سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایک سال بعد ان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر ابو سلیم جیل میں غیر انسانی حالات کی مذمت کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی وجہ کے قید افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
دوبارہ اپنے خیالات کے ساتھ وہ فروری دو ہزار گیارہ میں سامنے آئے، جب باغیوں کے گڑھ بن غازی میں نہتے مظاہرین پر قذافی کی حامی فورسز نے فائرنگ کی۔ عبدالجلیل اس واقعے کو عذر بناتے ہوئے حکومت سے علیٰحدہ ہو گئے اور قومی عبوری کونسل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس وقت ان کا کہنا تھا، ’’یقیناﹰ ہم قذافی کی اخلاقیات اور طرز عمل کو جانتے ہیں۔ اس کے لیے لیبیا اور اس کے عوام اہم نہیں ہیں۔ اپنے آخری لمحات میں وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ طرابلس کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ سب کچھ کر سکتا ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘‘
مارچ میں جب لیبیا کو نو فلائی زون قرار دینے کی باتیں کی جا رہی تھیں، تب مصطفیٰ محمد عبدالجلیل کا ہی کہنا تھا کہ ان کی فوجی مدد بھی کی جائے۔ اس کے بعد سفارتی حلقوں میں بھی ان کا نام سامنے آنے لگا۔ اِس کی بہتریں مثال اُس وقت سامنے آئی، جب فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے ان کو مدعو کرتے ہوئے قومی عبوری کونسل کو لیبیا کے عوام کی جائز نمائندہ تسلیم کیا۔ طرابلس میں باغیوں کے مارچ کے بعد عبدالجلیل کی کوشِش ہے کہ عوامی نظام کو بحال رکھا جائے۔ انہوں نے باغیوں کو قذافی کے حامیوں سے بدلہ نہ لینے کے لیے کہا ہے۔ یہ اپیل نہ مانے جانے کی صورت میں انہوں نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔
رپورٹ: ماتھیاس فان ہلفیلڈ / امتیاز احمد
ادارت: امجد علی