لیبیا کے ساتھ سرحد بند نہیں کر سکتے، نائیجر
8 ستمبر 2011نائیجر کے وزیر خارجہ محمد بازوم کا کہنا تھا کہ دارالحکومت نیامی میں پہنچنے والے قذافی کے وفادار ساتھی یہاں رہنے کے لیے مکمل آزاد ہیں اور وہ کہیں بھی آ جا سکتے ہیں۔ قبل ازیں لیبیا کی قومی عبوری کونسل نے نائیجر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ قذافی کے حامیوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکے۔ گزشتہ ہفتے کرنل قذافی کی بیوی، ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی لیبیا سے فرار ہونے کے بعد الجیریا پہنچے تھے تاہم ابھی تک یہ پتہ نہیں چلایا جا سکا ہے کہ قذافی خود کہاں موجود ہیں۔
دوسری جانب معمر قذافی کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ ترین بیان میں کہا گیا ہے کہ مغربی ممالک ان کے فرار کی جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔
نائیجر کی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ لیبیا کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے وہ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے ساتھ رابطے میں ہے۔
لیبیا کے ایک حکومتی عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’جب کوئی ملک جنگی حالت کا شکار ہو اور اس کے عوام خطرے سے بچنے کے لیے دوسرے ملک میں داخل ہونا چاہیں تو ان سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کیوں کہ اس طرح انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہوتا ہے۔‘‘
قبل ازیں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا تھا کہ نائیجر فرار ہونے والے قافلے میں لیبیا کے سابق حکومتی اہلکار تو ہیں مگر قذافی اس قافلے میں نہیں تھ۔ امریکی حکومت نے نائجر پر زور دیا تھا کہ وہ لیبیا کے سابق عہدیداروں کو گرفتار کرے کیوں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کو مطلوب ہیں۔ امریکی اسٹیٹٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان نے نائجر کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے ساتھ اس حوالے سے تعاون کرے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز خبر رساں ادارے روئٹرز نے فرانسیسی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ ممکنہ طور پر لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور سیف الاسلام قذافی بھی اس قافلے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دو سو سے ڈھائی سو گاڑیوں پر مشتمل لیبیا کے فوجیوں کے ہمراہ ایک بڑا قافلہ نائیجر میں داخل ہوا تھا۔ اس میں جنوبی لیبیا کی فوج کے افسران بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق یہ قافلہ لیبیا سے الجزائر کے راستے نائیجر میں داخل ہوا اور ممکنہ طور پر اس قافلے کی منزل برکینا فاسو تھی۔ اس سے قبل برکینا فاسو نے معمر قذافی اور ان کے اہل خانہ کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد