لیبیا کے ساحلوں سے 104 پناہ گزینوں کی لاشیں ملیں، نیوی
3 جون 2016نیوز ایجنسی اے ایف پی کی زوارہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بحیرہ روم کے راستوں سے لیبیا سے اٹلی جانے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی کشتی الٹنے سے سو سے زائد تارکین وطن ہلاک ہو گئے ہیں۔
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
لیبیا کی نیوی کے مطابق لیبیا کے مغربی قصبے زوارہ کے ساحلوں سے ڈوب کر ہلاک ہونے والے 104 پناہ گزینوں کی لاشیں ملی ہیں۔ نیوی کے ترجمان کرنل ایوب قاسم نے اے ایف پی کو بتایا، ’’جمعرات کی شب ایک سو چار تارکین وطن کی لاشیں ملی ہیں تاہم ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیوں کہ عام طور پر ایک کشتی میں 115 سے لے کر 125 کے درمیان پناہ گزین سوار ہوتے ہیں۔‘‘
زوارہ کے ساحل پر موجود اے ایف پی کے فوٹوگرافر کا کہنا ہے کہ ڈوب کر ہلاک ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انسانوں کے اسمگلر کافی سرگرم ہیں اور ملکی ساحلوں سے بحیرہ روم کے راستوں سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں حالیہ عرصے کے دوران خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
لیبا کے ساحلوں سے اٹلی تک کا یہ خطرناک سمندری 300 کلو میٹر سے بھی طویل ہے اور انسانوں کے اسمگلر پناہ گزینوں کو چھوٹی اور خستہ حال کشتیوں میں سوار کر کے بحیرہ روم کی لہروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
کرنل قاسم کا کہنا تھا کہ اٹلی کا رخ کرنے والے زیادہ تر پناہ گزین اسی علاقے سے سمندر میں اترتے ہیں اور ان کا تعلق عام طور پر افریقی اور عرب ممالک سے ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق رواں برس جنوری سے لے کر اب تک دو لاکھ سے زائد تارکین وطن بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی تک پہنچ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ عرصے کے دوران 700 سے زائد مہاجرین اور پناہ گزین بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں جن میں 40 بچے بھی شامل ہیں۔ جنوری سے لے کر اب تک ڈوب کر ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد 2500 بھی زائد ہے۔
لیبیا کی بحری فوج کے ترجمان نے اس بحرانی کیفیت کے دوران عالمی برادری کے ردِ عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا، ’’بین الاقوامی برادری صرف لاشیں گننے اور بیانات جاری کرنے تک ہی محدود ہو چکی ہے۔‘‘
زوارہ کی بلدیہ نے اس افسوسناک حادثے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فیس بُک پیج پر لکھا کہ زوارہ کی انتظامیہ کے پاس ’اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وسائل کافی نہیں ہیں‘۔