’لیڈی القاعدہ‘ کے ساتھ کیا ہوا؟
26 دسمبر 2014یہ پاکستانی نژاد سائنسدان افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں ایک امریکی جیل میں سزا کاٹ رہی ہے۔ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ، عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس اور شدت پسند مسلمانوں کے کئی دیگر گروپ 42 سالہ عافیہ کی رہائی کے عوض اپنے زیر حراست اسیروں کو رہا کرنے کی پیشکش آئے دن کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے شورش زدہ اور بہت پھیلے ہوئے بندرگاہی شہر کراچی میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے عافیہ صدیقی کے گھر والوں نے عافیہ کی بے گناہی کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس خاتون سائنسدان پر لگائے گئے الزامات اور اس کی ذات سے منسوب کیے جانے والے بھیانک واقعات کے خلاف سخت احتجاج بھی کیا۔
نظریہ سازش
امریکا کی ’عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دور کی نظریہ سازش کے تحت بیان کی جانے والی ایک بہت مشہور کہانی دراصل عافیہ صدیقی کی داستان ہے، جو مارچ 2003 ء میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے چوٹی کے منصوبہ سازوں میں نمبر تین مانے جانے والے خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ خالد شیخ محمد کو نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں زیادہ تر KSM کے مخفف سے پکارا جاتا ہے اور 2003 ء میں گرفتاری کے بعد انہیں امریکا کے حوالے کر دیا گیا جہاں سے انہیں بدنام زمانہ گوانتانامو کی جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
امریکی سینیٹ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اذیت رسانی کے طریقوں سے متعلق سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو گوانتانامو کی جیل میں تفتیش کے دوران واٹر بورڈنگ اور دیگر جسمانی اذیتوں کا شکار بنایا گیا۔ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے فوراً بعد ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ساتھ کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھی۔ امریکا کی طرف سے اُس پر دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ امریکی میڈیا میں عافیہ صدیقی کیس کے بارے میں سامنے آنے والی چند رپورٹوں میں عافیہ صدیقی کو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے اسے ’لیڈی القاعدہ‘ کا نام بھی دیا گیا تھا۔
عافیہ پر لگے الزامات
پانچ سال بعد عافیہ صدیقی کی زندگی کے آثار پاکستان کے جنگ سے تباہ حال پڑوسی ملک افغانستان میں ظاہر ہوئے۔ وہاں اسے جنوب مشرقی صوبے غزنی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ امریکی عدالتی دستاویزات کے مطابق عافیہ صدیقی کے پاس سے دھماکہ خیز کیمیائی مادے سوڈیم سائنائیڈ سے بھری بوتلیں اور نیو یارک کے بروکلین پُل اور امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کو تباہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کا منصوبہ برآمد ہوئے تھے۔
افغان حکام نے عافیہ کو امریکی فورسز کے حوالے کر دیا جنہوں نے اس پاکستانی سائنسدان سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ شاہدین کے مطابق دوران تفتیش عافیہ نے ’امریکا مردہ باد‘ اور ’میں امریکیوں کو قتل کرنا چاہتی ہوں‘ جیسے کلمات ادا کرتے ہوئے ایک رائفل اُٹھائی اور امریکی فوجیوں پر فائر کھول دیا۔ تب امریکی فوجیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا تھا اور وہ جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن عافیہ صدیقی زخمی ہو گئی تھی۔
افغانستان سے عافیہ کو امریکا پہنچا دیا گیا جہاں اس کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی اور امریکی فوجیوں پر قاتلانہ حملے کے الزام میں اسے 86 سال کی قید سنا دی گئی۔ یہ سزا اسے القاعدہ سے کسی قسم کا تعلق رکھنے کے الزام میں نہیں سنائی گئی تھی۔