1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماؤنوازوں نے سرکاری اہلکار کو رہا کر دیا

25 فروری 2011

بھارت ریاست اڑیسہ میں ماؤنوازوں نے نو روز سے یرغمال بنائے گئے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کو جمعرات کے روز رہا کر دیا ہے۔ اس رہائی کے لیے ریاستی حکومت کو باغیوں کی کئی شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔

https://p.dw.com/p/10PCP
تصویر: AP

رہائی پانے والے آر ونیل کرشنا ریاستی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار ہیں اور انہیں رواں ماہ کی 16 تاریخ کو ماؤنوازوں نے اُس وقت اغواء کرلیا تھا، جب وہ حکومتی انجینئر پابترا ماجھی کے ہمراہ جنوبی ملکانگری ضلع کے علاقے میں قبائلیوں سے ملاقات کے بعد لوٹ رہے تھے۔ مانجھی کو ماؤنوازوں نے بدھ کے روز رہا کر دیا تھا۔

ان مغویوں کی رہائی کے لیے طے پانے والی شرائط میں ریاستی حکومت کے زیرحراست متعدد ماؤنوازوں باغیوں کی رہائی بھی شامل تھی۔ اس مقصد کے لیے باغیوں کی جانب سے متعین کیے گئے ایک ثالث نے ریاستی حکومت سے مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات کا آغاز اتوار کے روز سے ہوا تھا۔

رہائی کے بعد کرشنا نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئےحکومت، ثالثوں اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ باغیوں نے انہی کسی پریشانی سے دوچار نہیں کیا بلکہ ان کی بہتر دیکھ بھال کی۔

Die indische Rote Armee
بھارت کے 626 اضلاع میں سے ایک تہائی سے زائد ماؤنوازوں کی سرگرمیوں سے متاثرہ ہیںتصویر: AP

اس سے قبل کرشنا کی رہائی سے متعلق غیر یقینی کی صورتحال اس وقت پیدا ہو گئی تھی، جب ثالثوں کی جانب سے ایک معاہدہ طے پانے کو تھا اور باغیوں نے اس رہائی کے بدلے مزید شرائط رکھ دیں۔

باغیوں کی طرف سے پیش کردہ شرائط میں متعدد ماؤنواز رہنماؤں کی رہائی کے ساتھ ساتھ ریاست میں باغیوں کے خلاف آپریشن کی بندش بھی شامل تھی۔ حکومت کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کرشنا کی رہائی کے لیے کتنے ماؤنواز عسکریت پسندوں کو رہا کیا جائے گا۔

اڑیسہ کے وزیراعلیٰ نوین پٹنیک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے کچھ وعدے کیے ہیں، جنہیں پورا کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ بھارت کے 626 اضلاع میں سے ایک تہائی سے زائد ماؤنوازوں کی سرگرمیوں سے متاثرہ ہیں۔ باغیوں کا موقف ہے کہ وہ غریب علاقوں اور عوام کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں تاہم بھارتی وزیراعظم نے گزشتہ برس اپنے ایک بیان میں ماؤنوازوں کو بھارتی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ گزشتہ برس ماؤنوازوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے باعث باغیوں، سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت 1170 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں