امیدوں کے سفر کا لرزہ خیز انجام
8 اگست 2015بحیرہ روم میں کشتی کے حالیہ حادثے کے نتیجے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اسی باعث بدھ کے روز پیش آنے والے اس حادثے کو ماضی میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کے مقابلے میں سب سے زیادہ المناک اور لرزہ خیز قرار دیا جا رہا ہے۔
بدھ پانچ اگست کو بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے نتیجے میں کئی چھوٹے بچے ماؤں کو ہاتھوں سے نکل کر سمندر کی نذر ہو گئے۔ ایسی ماؤں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے لاڈلے سمندر میں ڈوب رہے ہیں۔ مہاجرت کا یہ سفر ان افراد کی زندگی کے لیے عمر بھر کا روگ بن کر رہ گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی میں چھ سو سے زائد افراد سوار تھے، جن میں سے 367 کو بچا لیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے یف پی نے بتایا ہے کہ اٹلی کے خود مختار جزیرے سیسلی میں ان افراد کو نفیساتی مدد پہنچائی جا رہی ہے تاکہ وہ اس حادثے کے اثرات سے نکل سکیں۔
امدادی ادارے کاری تاس نے سیسلی میں ایک خصوصی کیمپ لگا دیا ہے، جہاں کمیونٹی ورکرز، ماہر نفسیات، مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور رضا کار امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ اس کیمپ میں ایسی ماؤں کو بھی نفسیاتی مدد فراہم کی جا رہی ہے، جو اس حادثے کے نتیجے میں اپنے بچوں کو کھو چکی ہیں۔
سیسلی کے اس کیمپ میں موجود ماہر نفسیات آنا کیلوآٹا کے مطابق بدھ کو پیش آنے والا یہ حادثہ انتہائی المناک ہے کیونکہ اس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک یا لاپتہ ہو گئی ہے۔ وہ ایسی ماؤں کے غم غلط کرنے میں معاونت کر رہی ہیں، جن کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب گئے ہیں۔
حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی میں اپنے بچے کے ساتھ ایک ایسی خاتون بھی موجود تھی، جو سویڈن میں اپنے شوہر تک پہنچنا چاہتی تھی۔ اپنے بچے کو ایک اچھا مستقبل فراہم کرنے کے لیے اس نے خطرات کو قبول کیا اور ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار ہو گئی۔ تاہم خوشیوں کے ساتھ ایک نئے دیس میں پہنچنے کے تمام خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے، جب اس حادثے میں اس کا بچہ سمندر میں ڈوب گیا۔
کیلوآٹا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ خاتون بہت پرامید تھی۔ اس کی دل میں ایک نئی زندگی کی خوشیاں موجزن تھی لیکن سمندر کی لہروں نے اس کے بچے کو نگل لیا۔ اس حادثے کے بعد اس نے اپنے شوہر کو خبر دینے کے لیے صرف یہ بتایا کہ ان کا بچہ مر گیا ہے، اس کے بعد سے وہ خاموش ہے۔‘‘
کیلوآٹا کے بقول متاثرین کو اپنے نفسیاتی اور جذباتی دباؤ سے نمٹنے کے لیے مدد درکار ہے، ’’انہیں یقین دلانے کی کوشش کی ضرورت ہے کہ اب بھی ایک نئی زندگی ممکن ہے۔‘‘ کیلوٹا نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس حادثے میں اپنے تین بچوں کو کھو دینے والی ایک خاتون جب سیسلی پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے اور ایک نئی زندگی اس کی منتظر ہے۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی سیسلی کے لیے کوآرڈینیٹر کیارا مونتالتو کا کہنا ہے کہ اس حادثے کے متاثرین کو اپنا غم اور دکھ بھلانے کے لیے گفتگو کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار نہیں کریں گے تو ان کا نفسیاتی بوجھ بڑھتا چلا جائے گا، انہیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو ان کی ثقافت، زبان اور روزمرہ زندگی کو جانتے ہوں۔ اس طرح وہ کھل کر بات کر سکیں گے اور ان کا دکھ ہلکا ہو سکے گا۔‘‘
ماہر نفسیات آنا کیلوآٹا کے مطابق اس حادثے کے نتیجے میں متاثر ہونے بچوں کو بھی بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، ’’ان بچوں نے اپنے بھائی بہن یا والدین کھو دیے ہیں۔ ان کو ہم کھیلوں میں مصروف کر رہے ہیں تاکہ ان کی توجہ تبدیل کرائی جا سکے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ بہت سے بچوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے والدین ہلاک ہو چکے ہیں، ’’ہم نے ان کو بتایا ہے کہ ان کے ماں کام پر گئی ہوئی ہے اور وہ جلد ہی واپس آ جائیں گی۔‘‘ کیلوآٹا کا کہنا ہے کہ یہ المیہ ہم سب کے لیے ایک سبق سے کم نہیں ہے۔