ماحولیاتی تبدیلیوں سے عراق میں کھجوروں کے باغات شدید متاثر
22 ستمبر 2024عراق کے وسطی علاقے میں صوبے بابل کے جناجہ گاؤں کے قریب ایک خوبصورت سبز وادی ہے۔ اس علاقے میں موجود بیلوں اور کئی دیگر پھل دار درختوں کے درمیان کھجور کے سینکڑوں درخت آج بھی کھڑے ہیں۔ کھجوروں کی پیداوار کے حصول کے موسم میں ان درختوں کی شاخیں پیلی اور سرخ کھجوروں سے بھر جاتی ہیں۔
کسان شدید گرمی سے بچنے کے لیے صبح سویرے کام شروع کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کے زور پر جسم سے لپیٹے گئے حفاظتی پٹے اور درخت کے تنے کے گرد لپٹی ہوئی رسی کی مدد سے ان بلند درختوں پر چڑھتے ہیں۔
جناجہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اور گاؤں بیرامانہ کے 36 سالہ کسان عابد نے بتایا، ''پچھلے سال، باغات اور کھجور کے درخت پانی کی کمی کے باعث شدید متاثر تھے، ہمیں ڈر تھا کہ ہم انہیں بچا نہیں سکیں گے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس سال ہمیں وافر مقدار میں پانی ملا اور فصل بہترین ہوئی۔‘‘
جب کسان کھجور کے کسی درخت کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں، تو وہ پکی ہوئی کھجوریں توڑ کر ٹوکریوں میں ڈالتے جاتے ہیں۔ پھر یہ ٹوکریاں نیچے زمین پر اتاری جاتی ہیں، جہاں یہی کھجوریں بڑے بڑے کنٹینروں میں ڈالی جاتی ہیں اور پھر ان کنٹینروں کو ٹرکوں پر لادا جاتا ہے۔
عابد نے بتایا کہ اب مجموعی طور پر فصل ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہوگئی ہے۔ پہلے ان کے باغات سے حاصل ہونے والی کھجوروں کی فصل 12 ٹن سے زائد تک رہتی تھی۔ اب لیکن یہ فصل صرف چار سے پانچ ٹن کے درمیان تک ہی رہتی ہے۔
عابد نے حکومت کی طرف سے امداد کی فراہمی نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ محض طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کافی ثابت نہیں ہوتا۔
عراق میں کھجوروں کی کاشت کو بحال کرنے میں اب تک ایک دہائی سے زائد کا عرصہ لگ چکا ہے۔
حکام اور مقامی مذہبی اداروں نے نئے درخت لگانے اور ان کی نشو و نما کو فروغ دینے کے لیے مخصوص سرگرمیوں اور بڑے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔
پچھلے ماہ ملکی وزارت زراعت کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے آئی این اے کو بتایا تھا کہ 1980 کے بعد پہلی بار ملک میں کھجور کے درختوں کی مجموعی تعداد 22 ملین سے تجاوز کرگئی ہے، جو کہ ماضی میں ایک وقت پر تو بہت کم ہوکر صرف آٹھ ملین رہ گئی تھی۔ 1980 میں عراق اور ایران کے مابین جنگ کے دوران ایرانی فوجی دستوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے سرحد سے متصل کھجور کے کئی بڑے باغات کو تباہ کر دیا گیا تھا۔
عالمی بینک کے مطابق آج عراقی کھجوریں تیل کے بعد اس ملک کی دوسری سب سے بڑی برآمدی جنس ہیں، جن سے 120 ملین ڈالر سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023ء میں عراق نے تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ ٹن کھجوریں برآمد کی تھیں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ جناجہ کے آس پاس کے علاقوں میں لگے کھجور کے بہت سے درخت یا تو مرگئے یا کاٹ دیے گئے۔ 56 سالہ کسان میثم طالب کہتے ہیں، ’’یہ تمام درخت مر چکے ہیں، خشک سالی کے باعث پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے ان کے پاس پانی کی وافر مقدار دستیاب تھی، جو کہ آبپاشی کے لیے کافی تھی۔ تاہم اب یہی کام کرنے کے لیے انہیں جدید مشینری کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ بہت پیچیدہ بات ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق عراق دنیا کے ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے، جو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
اس ملک کو گزشتہ مسلسل چار سال سے خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم اس سال موسم سرما میں ہونے والی بارش کے باعث وہاں صورتحال میں معمولی سی بہتری آئی ہے۔
عراق میں شدید گرمی کے موسم میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور وہاں بارشیں بھی کم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایران اور ترکی کی جانب سے بنائے گئے ڈیموں کی وجہ سے بھی عراقی دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
اسی عراقی خطے کے 42 سالہ کسان کفاہ طالب خشک سالی کے باعث ہونے والی زرعی تباہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ خطہ کبھی جنت کا منظر پیش کرتا تھا، جہاں سیب، انار، لیموں کے درخت اور سرسبز بیلیں سبھی کچھ پھلتا پھولتا تھا۔‘‘
ح ف / ص ز (اے ایف پی)