مالدیپ میں صدارتی الیکشن، جمہوریت کے لیے امتحان
10 ستمبر 2013مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید کی معزولی کے بعد فروری 2012ء میں شروع ہونے والے مختصر سیاسی بحران نے اس ملک کی سیاحت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے سالانہ بنیادوں پر قریب ایک ملین افراد اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔ جمہوریت کے لیے ایک کارکن کے طور پر مقبول ہونے والے محمد نشید نے 2008ء کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم گزشتہ برس پولیس کی طرف سے بغاوت کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
چھیالیس سالہ نشید کہتے ہیں کہ دراصل نائب صدر محمد وحید نے سابق آمر مامون عبدالقیوم کے ساتھ مل کر سازش کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے ہٹایا تھا۔ نشید کے بقول ان کی حکومت کا تختہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الٹا گیا تھا۔ نشید کے مستعفی ہونے کے بعد نائب صدر وحید نے صدارت کا منصب سنبھال لیا تھا، جس کے بعد عوامی سطح پر نہ صرف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا بلکہ پر تشدد فسادات بھی دیکھنے میں آئے تھے۔
محمد نشید نے اپنی معزولی پر تبصرہ کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’لوگ جانتے ہیں کہ مجھے کس طرح اقتدار سے ہٹایا گیا تھا، میرا خیال ہے کہ اس بات سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خوش نہیں ہے۔‘‘ دارالحکومت مالے میں اپنی مہم کے دوران نيوز ايجنسی اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’ عوام کی کوشش ہے کہ ملک کی جائز حکومت دوبارہ اقتدار میں آ جائے۔‘‘ انتہائی پرسکون دکھائی دے رہے نشید نے کہا کہ وہ پر اعتماد ہیں کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہی وہ واضح اکثریت حاصل کر لیں گے۔ کسی امیدوار کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے کے نتیجے میں الیکشن کا دوسرا مرحلہ اٹھائیس ستمبر کو ہو گا۔
ٹرانسپرنسی مالدیپ کے الیکشن مانٹرنگ گروپ کے مطابق نشید، وحید اور دیگر دو صدارتی امیدواروں کی سیاسی مہم ابھی تک پر امن رہی ہے۔ تاہم اس گروپ سے وابستہ طارق حامد کے بقول ملک میں حکومتوں کے تختہ الٹنے کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے حکومتی سکیورٹی فورسز کو کچھ تحفظات ہو سکتے ہیں۔ نشید کے بقول ان کے خلاف لگائے جانے والے طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات سیاسی طور پر گھڑے گئے ہیں۔
امریکا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل وحید اقوام متحدہ میں بطور سفارتکار بھی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ تاہم عوامی جائزوں کے مطابق سات ستمبر کو منعقد ہونے والے انتخابات میں وہ آخری نمبر پر آئیں گے۔ ان انتخابات میں مالدیپ کی ایک امیر ترین شخصیت قاسم ابراہیم بھی بطور صدارتی امیدوار میدان میں اتر رہے ہیں جب کہ چوتھے امیدوار عبداللہ یامین ہیں، جو سابق مطلق العنان حکمران قیوم کے سوتیلے بھائی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے زور دیا ہے کہ مالدیپ میں شفاف اليکشن کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ علاقائی طاقت بھارت کی بھی کوشش ہے کہ اس ریاست میں انتخابات میں دھاندلی نہ ہو۔ یہ امر اہم ہے کہ وحید کے دور اقتدار میں اسلام پسند سیاستدانوں کو خصوصی طور پر نوازا گیا تھا۔ اس وقت ناقدین نے ایسے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ ملک اسلامی انتہا پسندی کی طرف راغب ہو سکتا ہے۔ مالدیپ کی سیاحتی صنعت کی ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ابراہیم محمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس مشتعل ہجوم نے جس طرح پولیس تھانوں اور حکومتی عمارات کو نذر آتش کیا تھا، اس سے خطرے کی گھنٹیاں بج گئی تھیں۔
ابراہیم محمد کے بقول اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما ہونے کے نتیجے میں ملک کی سیاحت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا، ’’ہم خطرناک ملک کے طور پر بدنام نہیں ہونا چاہتے اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ لوگ ہمارے بارے میں یہ سوچیں کہ ہم میں برداشت کا مادہ نہیں ہے۔‘‘