مالی میں یرغمال بنائے جانے کی کارروائی کا خونریز انجام
20 نومبر 2015یرغمال بنائے جانے کی یہ کارروائی پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے ٹھیک ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ کم از کم اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے امن دستے مرنے والوں کی تعداد کم از کم ستائیس بتا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ امن فوجیوں نے ہوٹل کے تہ خانے میں بارہ لاشیں دیکھیں جبکہ دوسری منزل پر اُنہیں پندرہ لاشیں نظر آئیں۔
مشتبہ مسلمان انتہا پسندوں نے مالی کے دارالحکومت بماکو کے لگژری ہوٹل ریڈیسن بلُو میں گھُس کر کوئی 170 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جن کی بڑی تعداد غیر ملکیوں پر مشتمل تھی۔ بتایا جا رہال ہے کہ مرنے والوں میں بیلجیم کی علاقائی اسمبلی کا ایک عہدیدار بھی شامل ہے۔
ہوٹل پر مسلح انتہا پسندوں کا حملہ شروع ہونے کے تقریباً نو گھنٹے بعد مالی کے سلامتی کے امور کے وزیر نے بتایا کہ امریکی اور فرانسیسی دستوں کی مدد سے مالی کی اسپیشل فورسز نے ہوٹل پر دھاوا بول دیا تھا اور یہ کہ اب اس ہوٹل میں مزید کوئی یرغمالی موجود نہیں ہے۔
ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےسکیورٹی کے وزیر سلیف تراوری نے بتایا:’’اب اُن کے ہاتھوں میں مزید کوئی یرغمالی نہیں ہے اور فورسز اُنہیں پکڑنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
اے ایف پی نے ایک غیر ملکی سکیورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب تک اٹھارہ لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں اور مالی کے ایک فوجی ذریعے کے مطابق دو حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اٹھارہ ہلاک شُگان میں وہ بھی شامل ہیں۔
تاحال ایسے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ ہوٹل پر اس حملے کا تعلق پیرس میں گزشتہ جمعے کو کیے جانے والے اُن ہولناک حملوں سے ہے، جن میں ایک سو تیس افراد لقمہٴ اجل بن گئے تھے تاہم حقیقت یہ ہے کہ شمالی افریقہ میں مالی کو مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف فرانسیسی فوجی آپریشنز کے ایک بڑے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
حملہ آور عالمی وقت کے مطابق صبح سات بجے 190 کمروں کے حامل اس ہوٹل میں ایک ایسی کار میں بیٹھ کر داخل ہوئے تھے، جس پر سفارتی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد ہوٹل کے اندر خود کار ہتھیاروں سے کی جانے والی فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ سلامتی کے امور کے وزیر سلیف ترواوری کے مطابق یہ حملہ آور اندھا دھند فائرنگ کرتے وقت ’اللہ اکبر‘ کے نعبرے بلند کر رہے تھے۔
بعد ازاں حملہ آور اِس سات منزلہ عمارت میں گھومتے رہے اور ہر منزل پر جا کر ایک ایک کمرے کی تلاشی لیتے رہے۔ اس دوران وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔ چند ایک یرغمالیوں کو حملہ آوروں نے اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ قرآن کی آیات سنا سکتے تھے۔ دیگر کو یا تو سکیورٹی فورسز نے رہا کروایا یا پھر وہ اپنے بل بُوتے پر بچ نکلے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور آپس میں انگریزی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ آخری اطلاعات آنے تک باقی ماندہ تمام یرغمالی رہا کروا لیے گئے تھے تاہم حملہ آوروں کے خلاف آپریشن جاری تھا، جو غالباً ہوٹل کی بالائی منزلوں پر جا کر مورچہ بند ہو گئے تھے۔