’مانوس کے حراستی مرکز میں پولیس کارروائی‘
23 نومبر 2017خبر رساں ادارے اے پی نے پاپوا نیو گنی کی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ تئیس نومبر بروز جمعرات پولیس اہلکاروں نے مانوس کے مہاجر سینٹر کو خالی کرانے کا آپریشن مکمل کر لیا ہے۔ مقامی اور سوشل میڈیا پر جاری خبروں کے مطابق اس مقصد کی خاطر پولیس اہلکاروں نے طاقت کا استعمال بھی کیا تاہم پاپوا نیو گنی کی پولیس نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
مانوس میں مہاجرین کو طبی مدد پہنچائی جائے، آسٹریلوی ڈاکٹرز
مہاجرین حراستی مرکز میں ہی کیوں رہنا چاہتے ہیں؟
مہاجرین کے لیے چوبیس گھنٹے کی مہلت
آسٹریلیا کی زیر پرستی چلنے والے اس سابقہ حراستی مرکز میں چار سو مہاجرین اسے خالی کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ یکم اکتوبر کو اس کیمپ کو بند کر دیا گیا تھا، جس کے بعد اس کیمپ میں بجلی، پانی اور امدادی سامان پہنچانے کا سلسلہ بھی روک دیا گیا تھا۔ پاپوا نیو گنی کی سپریم کورٹ نے اس مرکز کو غیر قانونی دے دیا تھا، جس کے نتیجے میں آسٹریلیا نے اس بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اس کیمپ میں موجود سینکڑوں مہاجرین کا کہنا تھا کہ وہ نئے بنائے جانے والے عارضی مہاجر کیمپوں میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ انہیں مقامی افراد کی طرف سے تشدد کا خوف ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح انہیں واپس ان کے ممالک روانہ کرنے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ یہ مہاجرین مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں کسی دوسرے شلیٹر ہاؤس میں منتقل کرنے کے بجائے کسی اور ملک روانہ کیا جائے۔
پاپوا نیو گنی کی پولیس نے البتہ اس کیمپ میں موجود مہاجرین کو نئے کیمپوں میں منتقل ہونے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ اگر وہ رضا مندی سے اس کیمپ کو نہیں چھوڑیں گے تو زبردستی کی جائے گی۔ مہاجرین کی طرف سے مسلسل انکار کے بعد جمعرات کو پولیس اہلکار سے کیمپ میں داخل ہو گئے جبکہ سوشل میڈیا پر جاری خبروں کے مطابق ان سکیورٹی دستوں نے مہاجرین کے سامان کو تباہ کر دیا جبکہ ان سے موبائل فونز بھی چھین لیے۔
دوسری طرف مانوس کے پولیس کمشنر گیری باکی نے ایسی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیمپ سے پچاس مہاجرین کو پرامن طریقے سے قریبی علاقے لورینگاو میں قائم ایک مہاجر کیمپ میں منتقل کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی مہاجر بہروز بوچانی کے علاوہ تمام مہاجرین پرامن طریقے سے اس کیمپ کو خالی کرنے کو تیار تھے۔ باکی نے کہا کہ بوچانی دراصل دیگر مہاجرین کو اکسا رہے تھے کہ وہ اس کیمپ کو خالی نہ کریں۔
بہروز بوچانی ایرانی صحافی ہیں، جو اس کیمپ میں بطور مہاجر مقیم تھے۔ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے اس کیمپ کی صورتحال کو سوشل میڈیا پر اجاگر کر رہے تھے۔ باکی نے ایسی خبروں کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ بوچانی کو گرفتار کیا گیا ہے یا ان کے خلاف کو فرد جرم عائد کی گئی ہے، ’’بوچانی مشکل پیدا کر رہے تھے، اس لیے پولیس اہلکاروں نے انہیں اس کیمپ سے باعزت طریقے سے نکال لیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خوش ہیں کہ اس کیمپ سے مہاجرین کو نکال کر پرامن طریقے سے نئے مراکز منتقل کر دیا گیا ہے۔