1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین حراستی مرکز میں ہی کیوں رہنا چاہتے ہیں؟

12 نومبر 2017

درجنوں مہاجرین جزیرہ مانوس کے حراستی مرکز سے دیگر کیمپوں میں منتقل ہو گئے ہیں لیکن سینکڑوں نے اس مرکز کو خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر نیوزی لینڈ نے ان میں سے کچھ مہاجرین کو پناہ دینے کی دعوت دہرائی ہے۔

https://p.dw.com/p/2nU5B
Australien schließt umstrittene Asyl-Heime auf Pazifik-Inseln
تصویر: picture-alliance/dpa/Rural Australians For Refugees

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاپوا نیو گنی کی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ مانوس جزیرے پر قائم  مہاجرین کے شیلٹر ہاؤس سے درجنوں مہاجرین کو دیگر کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے لیکن سینکڑوں دیگر اس مرکز کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔

مہاجرین کے لیے چوبیس گھنٹے کی مہلت

زبردستی نہ کی جائے، مہاجرین کی آہ و بکا

نیوزی لینڈ کی مہاجرین کو پناہ دینے کی پیشکش

’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘

پاپوا نیو گنی کی سپریم کورٹ کی طرف سے اس حراستی مرکز کے غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد اکتیس اکتوبر کو اسے بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس مرکز میں مقیم مہاجرین کو خوف ہے کہ اگر وہ وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوئے تو انہیں مقامی آبادی انہیں تشدد کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہیں آسٹریلیا جانے کی اجازت دی جائے۔ ان مہاجرین میں پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ آسٹریلیا میں امیگریشن پالیسی انتہائی سخت ہے اور وہاں پناہ حاصل کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ ماضی میں کینبرا حکومت سمندری راستوں سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو پکڑ کر پاپوا نیو گنی میں قائم دو حراستی مراکز میں پہنچا دیتی تھی۔ مانوس اور ناؤرو جزائر پر واقع مہاجرین کے ان حراستی مرکز کا انتظام بھی آسٹریلوی حکومت چلاتی رہی ہے۔ اس وقت مانوس جزیرے پر قائم اس ایک حراستی مرکز میں چھ سو مہاجرین موجود ہیں۔

پاپوا نیو گنی کی حکومت نے اس کیمپ کو پانی، بجلی اور دیگر سہولیات اور امدادی سامان کی ترسیل بند کر دی ہے لیکن پھر بھی 423 مہاجرین اس کیمپ کو خیرباد کہنے سے انکاری ہیں۔ اس کیمپ میں موجود ایک عراقی صحافی بہروز بوچانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ خوراک اور پانی کی عدم دستیابی کے باعث وہاں موجود مہاجرین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

ان مہاجرین کے مطابق وہ ایک طویل عرصے سے بے یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں اور اگر اب بھی انہیں آبادکاری کی اجازت نہ دی گئی تو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ انہیں واپس ان کے آبائی ممالک بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی معطل، مہاجرین پریشان

ناؤرو کے مہاجرین کی امیدیں پھر ڈوب گئیں

پیسیفک کے تارکین وطن، چھان بین کے لیے ٹرمپ اجازت کے منتظر

آسٹریلیا اور پاپوا نیو گنی کی حکومتوں نے اس کیمپ میں موجود مہاجرین کے لیے تین مختلف شیلٹر ہاؤسز بنائے ہیں، جہاں تمام بنیادی ضروریات کی اشیاء فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پاپوا نیو گنی کے حکام نے دہرایا ہے کہ اگر اس کیمپ میں موجود مہاجرین اپنی رضا مندی سے نئے مہاجر مراکز نہ گئے تو انہیں زبردستی وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔ کچھ مہاجرین نے پاپوا نیو گنی کی سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر دی ہے کہ انہیں اس کیمپ سے نہ نکالا جائے۔ ممکنہ طور پر اس اپیل پر سماعت کل پیر تیرہ نومبر کو ہو گی۔

ادھر اس ابتر صورتحال میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسِنڈا آرڈرن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ویلنگٹن حکومت پاپوا نیو گنی میں موجود ڈیڑھ سو مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے پر تیار ہے۔ ہفتے کے دن ویت نام میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاپوا نیو گنی میں مہاجرین کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور اس لیے نیوزی لینڈ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اپوزیشن رہنما میلکم ٹرن بل نے وزیر اعظم آرڈرن کی اس پیشکش کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔