ماہواری اور مائیرینا! ( مرینہ خان سے معذرت کے ساتھ)
14 جنوری 2022آج پھر دو باتیں ہوئیں، معاف کیجیے گا دو نہیں تین ! واللہ، ہمیں وہ جادوگر ہر گز نہ سمجھیے جو ہیٹ سے کبھی کبوتر نکالتا ہے اور کبھی ریشمی رومال! ہم تو بس یونہی کچھ نہ کچھ سنانے کا شوق رکھتے ہیں۔
دہلی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر پونم پڑوسی ہسپتال میں میڈیکل سپیشلسٹ ہیں۔ وہ اپنے چیک اپ کے لیے آئیں اور ہماری ٹرینی ڈاکٹر کو انہوں نے داستان حمزہ کی طرح اپنی کہانی بیان کر دی کہ کیسے ماہواری انہیں موت کے دہانے تک لے گئی تھی اور انہیں مرینہ نے بچا لیا۔
ابھی پونم کی کہانی جاری تھی کہ رفیق و ہمدم ہما کوکب بخاری کا پیغام آن پہنچا، وہ جو تم نے مرینہ کا کہا تھا نا اس کی بات میں نے کر لی۔
کچھ دیر بعد ہی ایک اور خاتون ہانپتی کانپتی ہوئی تشریف لے آئیں، جو ماہواری کی تباہ کاریوں سے تنگ آ کر اب مرینہ کی پناہ میں آنا چاہتی تھیں۔
طاہرہ کاظمی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
پریشان ہو گئے نا کہ کون ہیں یہ مرینہ بی بی؟ جن کا ذکر چہار سو پھیلا ہے۔ ویسے ہم بھی ایسے ہی حیران ہوئے تھے جب ہمارے گائناکالوجسٹ پروفیسر عطا اللہ خان نے ایک صبح مرینہ کا ذکر خیر چھیڑا۔
پروفیسر عطا اللہ خان انگلینڈ سے جب لوٹے تو قابلیت اور تجربہ تو لائے ہی، لیکن ساتھ ہی انہیں جونئیر ڈاکٹرز کو دنیا میں ہونے والی نئی نئی ریسرچ سے متعارف کروانے کا شوق بھی عروج پر تھا۔
صبح صبح نشتر ہسپتال کے وارڈ نمبر سولہ پہنچتے، میٹنگ روم میں سرخ رنگ کا پروجیکٹر کھولتے، سلائیڈز لگاتے اور یہ پروا کیے بغیر پڑھانا شروع کر دیتے کہ کون آیا، کون نہیں!
دنیا میں جو بھی میڈیکل جرنل شائع ہوتا، اس میں لکھی ہوئی ہر بات ہمیں فورا بتائی جاتی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی مغز کھپائی کے بعد وہ فورا چائے کے کمرے میں پہنچتے جہاں انگلینڈ کے قصوں کی محفل جمتی اور قہقہے چھت پھاڑنے کی کوشش کرتے۔
طاہرہ کاظمی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
نوے کی دہائی کے آخری برس چل رہے تھے کہ ایک دن ڈاکٹر عطا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، ’’بھئی وہ مرینہ آ گئی ہے اب بہت سے مسلے حل ہو جائیں گے۔’’
میں نے کہا، ’’سر، مرینہ تو پچھلے دس برس سے آئی ہوئی ہے‘‘۔
’’نہیں بھئی، ابھی آئی ہے ایک دو برس پہلے۔‘‘ سر نے جھلا کر کہا۔
اس پر میں نے اصرار کیا، ’’نہیں سر آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے وہ تو تب آئی تھی جب ہم سٹوڈنٹ تھے۔‘‘
سر نے حیران کن انداز میں جواب دیا، ’’نہیں بھئی نہیں، اتنی پرانی نہیں۔
’’سر اتنی ہی پرانی ہے‘‘، ہم بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے اور یہ تو مرینہ کا سوال تھا۔
اب عالم یہ تھا کہ ہم دونوں اس بحث میں الجھ کر زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ آخر جھنجھلا کر ہم نے کہا، ’’سر اس کا پہلا ڈرامہ ان کہی تھا اور ہم تب ایف ایس سی کر رہے تھے۔’’
سر چونک کر بولے، ’’کون ؟ ’’
’’سر وہی مرینہ خان جس کی آپ بات کر رہے تھے۔‘‘
’’مگر میں تو مرینہ خان کی بات نہیں کر رہا، میں تو مائیرینا کے متعلق بتا رہا ہوں‘‘، وہ اپنی چندیا کھجاتے ہوئے بولے۔
’’یہ مائیرینا کون ہے سر؟ ‘‘ اب آنکھیں پھاڑے ہم پوچھ رہے تھے۔
’’ارے بھئی، میڈیکل سائنس نے زبردست چیز بنائی ہے۔ اب یہ جو ماہواری عورتوں کی جان عذاب میں کیے رکھتی ہے نا، اس میں تو کچھ کمی ہو گی،‘‘ سر مسکرا کر بولے۔ ’’دیکھو پاکستان میں کب تک پہنچے گی؟‘‘
یہ تھا مائیرینا عرف مرینہ سے ہمارا پہلا تعارف۔ اب جب بھی مائیرینا کی بات ہوتی، یار لوگ مسکرا کر ہماری طرف ضرور دیکھتے اور ہم بھی ڈھیٹ بن کر دانت نکوس لیتے۔
ویسے بھی ہمیں مرینہ خان بہت اچھی لگتی تھیں، کچھ عمر بھی ان کے ادیب قریب تھی اور کچھ وہ ہوسٹل کے اس دور کی یاد دلاتی تھیں جب سو دو سو لڑکیاں چھوٹے سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر پرچھائیاں اور دھوپ کنارے دیکھتیں۔
بیچ میں اگر کوئی بھی کھسر پھسر کرتی تو فوراً کئی سر اس طرف مڑتے جن پہ لگی شعلہ بار آنکھیں یوں گویا ہوتیں کہ بی بی باتیں کرنا ہیں تو باہر جاؤ، دیکھتی نہیں ہو ابھی مرینہ اور ڈاکٹر احمر کا سین چل رہا ہے۔
ویسے ہم سب اس بات پہ کافی حیران ہوتے کہ میڈیکل وارڈز میں تو ہم بھی گھومتے پھرتے ہیں، رنگ برنگے کپڑے بھی پہن لیتے ہیں، شوخ و چنچل ہونے میں بھی کوئی شک نہیں، لیکن یہ ڈاکٹر احمر جیسے سینئر ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
طاہرہ کاظمی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
آپس کی بات ہے ہماری تو شاید قسمت ہی خراب تھی کہ زیادہ تر ماتھے پہ تیوریاں ڈالے، گنج اور توند میں خود کفیل اور مزاج میں ہری مرچ جیسے سینئرز سے ہی ہمیشہ پالا پڑا۔
کچھ صوم و صلواۃ کے پابند بھی ملے جن کی نظر یا تو وارڈ کی چھت سے لٹکتے بلب پہ جمی رہتی، یا بستر کے نیچے پڑی کوڑے کی بالٹی پر۔
سو ہماری حسرتوں کے غنچے تو کھلے ہی نہیں۔
پچھلے برس مرحوم حسینہ معین سے ملاقات ہوئی تو شکوہ لبوں پہ رکھا ہی رہ گیا کہ اے چارہ گر، راحت کاظمی کو سینئر کا رول دینا ضروری تھا کیا؟ کیا بگڑتا آپ کا اگر وہ رول منصور بلوچ کر لیتے؟ ہمارے دلوں پر یوں مونگ تو نہ دلی جاتی۔
دیکھ لیا نا آپ نے، آج بھی ہم مائیرینا بھول کر مرینہ میں گم ہیں۔
مائیرینا (Mirena) کی پیدائش انیس سو نوے میں فن لینڈ میں ہوئی۔ ہماری قیاس آرائی ہے کہ شاید فن لینڈ والے بھی دھوپ کنارے دیکھ کر مرینہ خان کے چاہنے والے بن چکے تھے اسی لیے خواتین کے لیے اس قدر زبردست ایجاد کو یہ نام دیا گیا۔
طاہرہ کاظمی کا یہ بلاگ بھی پڑھیے
مائیرینا ایک پتلی سی تار ہے جو رحم میں ویجائنا کے راستے رکھی جاتی ہے۔ اس میں ایک ہارمون پروجیسٹرون progesterone ڈالا گیا ہے، جو ہر روز معین مقدار خارج کرتا ہے۔ یہ تار پانچ سے چھ برس تک کام آتی ہے۔
اس تار کو کب استعمال کرنا چاہیے؟
جب ماہواری کا خون پرنالے سے تیز رفتار گرتے پانی کی طرح ہو جائے، جب بچوں کی پیدائش میں وقفہ کرنا ہو، جب ماہواری کا درد (Dysmenorrhea ) زندگی عذاب بنا دے اور جب مینوپاز کے بعد زندگی بے رنگ ہو جائے، یقین کیجیے ان تمام مواقع پہ مائیرینا آپ کی ایسی سہیلی بن جائے گی، جس کے بنا آپ ایک پل بھی نہیں گزار سکیں گی۔
مرینہ خان اسی کی دہائی میں آئیں جبکہ مائیرینا نوے کی دہائی میں لیکن نہ صرف بیسویں صدی ان کی آمد کو ہمیشہ یاد رکھے گی بلکہ ہم بھی !
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔