1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مجھ سے کوئی بھی مروت میرے فنکار نہ مانگ

12 مارچ 2021

کیا فن اور فنکار کے ساتھ ہمارا رویہ مناسب ہے؟ کیا ہم فنکاروں اور ان کے فن کی ویسی ہی تعظیم کرتے ہیں، جیسے انہیں ملنا چاہیے؟ اس انتہائی اہم موضوع پر منہا حیدر کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3qX8x
DW Urdu Blogger Manha Haider
تصویر: Privat

کبھی کوئی افسانوی کردار یا فلم کا منظر ایسے ذہن میں کھب جاتا ہے کہ آپ چاہ کر بھی اس کو محو نہیں کرسکتے۔ کچھ دن پہلے بالی وڈ فلم راک اسٹار کے ایک منظر کی یاد تازہ ہوئی جہاں  جورڈن نامی مرکزی کردار (گلوکار ) اپنے عروج کے زمانے میں ایک دوست کی خاندانی تقریب میں شامل ہوتا ہے اور مہمانوں کا تمام مجمع باری باری اس کے ساتھ تصویریں کھنچواتا ہے۔ یہاں تک  کہ  اس کی میزبان دوست بھی۔

لاک ڈاؤن: پاکستانی معاشرے کو تخلیقی ہاتھوں کو تھامنا ہوگا

تھائی لینڈ میں پھنسے ہوئے پاکستانی فنکاروں کی دہائی

کوئی اس سے اس کی ذات کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا اور جورڈن  سب سے پوچھتا ہے کہ محفل میں کوئی رہ تو نہیں گیا جس نے میرے ساتھ تصویر کھنچوانی ہو؟ اور مجمع چند لمحوں کو خاموش ہوجاتا ہے کہ  ایک فنکار کی حیثیت فقط ایک نمائشی شے جتنی رہ جاتی ہے اور اس کے جذبات اور احساسات دنیا کے لیے اہم نہیں ہوتے۔ جذباتی اتار چڑھاؤکی طرح فنکاروں کے رزق کا وسیلہ ان کا ہنر ہے چاہے وہ موسیقی ہو، مصوری، اداکاری،لکھائی یا فنون لطیفہ کا کوئی بھی شعبہ جو مین اسٹریم میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھتا ہو اگر کسی فنکار کو اس کا حق ہی نہ ملے تو وہ اپنی بقاکی جنگ کیسے لڑے گا۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک تقریب کے لیےمجھے کچھ گلوکاروں کو مدعو کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ ساتھ یہ کہا گیا کہ اجرت کے نام پر انہیں صرف داد ملے گی  اور بہت  ظلم ہوا تو کنوئینس الاؤنس کے نام پہ تھوڑی سی رقم  کا وعدہ۔ وہ بھی اس لیے کہ تین چار لوگوں کے گروپ کو شہر کے مختلف کونوں سے ایونٹ پر  سازوسامان کے ساتھ پہنچنا تھا۔

اب اصولی طریقہ کار تو یہ تھا کہ جس تھوڑی سی رقم کی بات ہوئی وہ تقریب کے اختتام پر انہیں دی جاتی لیکن رقم دینے والوں کی طرف سے مطالبہ یہ آیا کہ اگر آپ اوبر یا کریم سے آئے ہیں تو موبائل میں اپنی رائیڈ کا بل دکھائیے اور اتنی ہی رقم لے جائیے ۔ اب یہاں یہ ان فنکاروں کے لیے کافی ہتک آمیز صورتحال تھی کہ اگر ایک رقم کی ڈیل ہوچکی ہے تو بعد میں اس کو اس طرح سے مشروط کیوں کرنا انہوں نے رائیڈز کا بل دکھانے سے معذرت کرلی، جو کہ طے کردہ رقم سے زیادہ ہی بن رہی تھی لیکن بات سیلف ریسپیکٹ پہ بن  آئی تھی۔

’وہ ہنستے ہنستے رخصت ہو گئے‘

کبھی خود سے سوال کیا ہے کہ دنیا میں سب سے مشکل کام کیا لگتا ہے؟ اگر کوئی خود دار انسان اس سوال کا جواب دے گا تو وہ یہی ہوگا کہ  اپنے ہنر،کسی مہارت کا ایسے کام کی اجرت طلب کرنا جو آپ نے کڑی محنت سے سیکھا ہو اور پوری جان مار کر اس کا حق بھی ادا کیا ہو۔ بعض اوقات اپنے حق کے لیے بھی کشکول پھیلاتے ہوئے حیا آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مالی معاملات میں لین دین کا طریقہ نہایت  عجیب ہے جہاں سامنے طاقتور انسان ہو اور مستقبل میں اس سے فائدہ ملنے کا کوئی بھی امکان ہو عمومی رویہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں سے  لوگ پھر بھی فئیر ڈیلنگ کرتے ہیں۔

فنکاروں کے معاملے میں ہم اجتماعی طور پر کافی تنگ دل اور تنگ نظر واقع ہوئے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ہمیں ماضی کے کسی پرانے اداکار ،گلوکار یا شوبز سے تعلق رکھنے والی ہستیوں کی مالی بدحالی کی خبریں ملتی ہیں۔ اکثر ماضی کے بڑے بڑے فنکاروں نے اپنی زندگی کے آخری ایام سرکاری ہسپتالوں میں کسی حکومتی امداد کی آس میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر گزارے ہیں اور کسمپرسی کی موت کے بعد اگلے دوتین دن انہی کے پروگرام چلا کر انہیں خراج تحسین پیش کر دیا جاتا ہے پر زندگی میں ان کو وہ سہولتیں یا مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، جن سے شاید ان کی مشکلیں، آسانیوں  میں بدل جائیں۔

کتنے ہی ایسے نام ہیں جو ہماری بے حسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اپنے صحافی دوستوں کے دکھ سننے بیٹھو تو نیوز چینلز کے اپنے اتنے مسئلے ہیں۔ مشہور، زیادہ ریٹنگ  اور اثر و رسوخ والے اینکرز تو اچھا معاوضہ حاصل کر لیتے ہیں لیکن نئے آنے والے صحافی، جرنلسٹ ،کیمرہ مین اور دیگر تکنیکی شعبوں والے اتنی کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں کہ اور کسی شعبے میں شاید تنخواہیں اس قدر کم نہیں۔ فری لانس اسکرپٹ رائٹنگ ، کانٹینٹ رائیٹنگ  اور گرافک ڈیزائیننگ والوں کا بھی یہی حال ہے ۔ ہوائی رزق ہے کبھی کام ہوتا نہیں اور مل جائے تو بعض کلائنٹس اس قدر ذلیل کرکے ادائیگی کرتے ہیں جیسے کسی کی سروس کی اجرت نہیں بلکہ بھیک میں پیسے دے رہے ہوں۔

برلن میں پاکستانی ڈاکومینٹری ’انڈس بلیوز‘ کی نمائش

سب سے بڑا مسئلہ ایسے دوستوں کی شادیوں کے وقت اٹھتا ہے پہلے تو سامنے والے شوبز وغیرہ کی وجہ سے رشتہ نہیں کرتے کہ اس رزق کی کوئی ضمانت نہیں ہے دوسرا مذہبی عنصر کو بنیاد بناکر اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اس قسم کے شعبوں کی کمائی شاید 'حلال‘  نہیں ہوتی۔ یہاں بھی ہمارا عوامی دوغلا پن عروج پہ ہوتا ہے کہ خود  ان شعبہ جات سے تفریح کشید کی جاسکتی ہے لیکن ان کو اپنے خاندان کا حصہ بنانے پر ہزار قسم کی توجیہات پیش کردی جاتی ہیں۔

آج اپنے گھر کے کفیل کی حیثیت سے سوچیے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا ہنر ہو اور لوگ اول تو اس کی اجرت نہ دیں  یا ذلیل کرکے دیں تو آپ کے احساسات کیا ہوں گے۔اسلحے، منشیات، سود اور دیگر غیرقانونی ذرائع سے کمائی کرنے والوں سے تو رشتے کر لیے جاتے ہیں، پر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ سے اس تعصب کا شکار رہتے ہیں چاہے ان کا کردار اور کمائی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ حقدار کو اس کا حق نہ دینا اخلاقی گراوٹ کا سب سے پست درجہ ہے۔ ہر ہنر مند کو اس کی محنت کی اجرت عزت کے ساتھ ملنا چاہیےاور ہم تو ایسے غریب ہیں کہ اجرت تو کیا وہ داد اور عزت بھی نہیں دیتے جو ہمارے معاشرے کے فنکار کو نصیب ہونی چاہیے۔

اب بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم اپنے فنکاروں کو عزت دیتے ہیں تو شہنشاہ غزل مہدی حسن صاحب کی آخری آرام گاہ کی تصویر نکال کر ضرور دیکھیے کہ ہم نے ان کی قبر کے گرد کیسے آلائشوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے سے منسلک ہیں اپنی اجرت، فیس مکمل  اعتماد سے طلب  کر لیتے ہوں گے،  پر اس شعبے کے اکثر شعبوں میں فنکاروں کا استحصال اسی طرح کیا جاتا ہے۔ انہی  کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے گھٹن زدہ معاشرےمیں تازگی کا کچھ  اثر باقی ہے۔ درخواست بس یہ ہے کہ ان کو حق ضرور اور بروقت دیں اور ان کی زندگی میں دیں وہ چاہے وہ ان کے کام کا معاوضہ ہو، داد ہو یا کہ محبت۔