’مجھ پر تشدد کیا گیا، برطانوی افسران کھڑے دیکھتے رہے‘
13 دسمبر 2015نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ الزامات شاکر عامر نامی ایک برطانوی شہری نے عائد کیے ہیں، جو بنیادی طور پر ایک سعودی شہری ہے لیکن جس نے ایک برطانوی خاتون سے شادی کر رکھی ہے۔ امریکی حکام کو شبہ تھا کہ شاکر عامر ایک مسلمان عسکریت پسند ہے، جو القاعدہ کے ساتھ وابستہ ہے تاہم اُس پر کسی بھی جرم کے لیے باقاعدہ فردِ جرم کبھی بھی عائد نہ کی گئی۔ تیرہ سال تک گوانتانامو بے میں قید میں رہنے کے بعد شاکر عامر اسی سال اکتوبر میں رہا ہو کر واپس برطانیہ پہنچ چکا ہے۔
برطانوی اخبار ’میل آن سنڈے‘ میں شاکر عامر کا ایک انٹرویو اتوار تیرہ دسمبر کو شائع ہوا ہے، جس میں اُس نے بتایا ہے کہ گوانتانامو بے میں منتقلی سے پہلے اُسے افغانستان میں بگرام کے مقام پر ایک پنجرے میں رکھا گیا تھا اور یہ کہ امریکی تفتیش کاروں نے نہ صرف اُسے مارا پیٹا بلکہ اُسے نیند سے بھی محروم رکھتے رہے۔
شاکر عامر کے مطابق:’’وہ مجھ پر الزام لگاتے رہے کہ تورا بورا کی لڑائی میں مَیں بن لادن کے ساتھ تھا یا یہ کہ مَیں اسلحے کے اسٹور کا انچارج تھا، دہشت گرد بھرتی کرتا تھا حالانکہ میں افغانستان میں محض چند ہفتے کے لیے رہا تھا۔‘‘
شاکر عامر کا کہنا تھا:’’ایک امریکی مجھے سر سے پکڑتا تھا اور میرا سر پیچھے دیوار پر پٹخ دیتا تھا۔ مَیں اپنی طرف سے یہ سوچتا تھا کہ مجھے اپنا سر بچانے کی کوشش کرنی چاہیے چنانچہ میں سر کو آگے کی جانب لانے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن جیسے ہی میں ایسا کرتا تھا، وہ پھر میرا سر دیوار کے ساتھ پٹخ دیتا تھا۔‘‘
عامر نے بتایا کہ اُس کے خیال میں ایک برطانوی افسر اُس دور کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ہمراہ افغانستان پہنچا تھا اور اگرچہ وہ اُس کمرے میں موجود تھا، جہاں اُس سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی لیکن اُس نے مداخلت نہیں کی۔
حکومتِ برطانیہ کے ایک ترجمان نے اتوار ہی کے روز ہی کہا ہے کہ لندن حکومت تشدد کی کارروائیوں میں نہ تو شرکت کرتی ہے اور نہ ہی ایسی کارروائیوں سے اغماض برتتی ہے اور یہ کہ ’جہاں کہیں بھی اور جب بھی ایسا کچھ ہو گا‘ حکومت اُس کے خلاف اقدامات کرنے کا پختہ عزم رکھتی ہے۔
سکاٹ لینڈ کے سابق فرسٹ منسٹر ایلکس سیلمنڈ نے، جو سکاٹش نیشنل پارٹی کے ترجمان برائے خارجہ امور ہیں، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بلیئر اور اُن کے اُس دور کے وزیر داخلہ جیک سٹرا کو کچھ سوالوں کے جواب دینا ہوں گے، مثلاً اس سوال کا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ اُنہیں یہ پتہ ہی نہ ہو کہ ایک برطانوی شہری کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟‘
ایلکس سیلمنڈ نے مزید کہا ہے:’’تمام حکومتوں کی اولین ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کسی بھی نقصان سے بچائیں، حکومتوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے شہریوں کے غیر قانونی اغوا اور پھر اُن پر تشدد میں شریکِ کار بنیں۔‘‘