محققین نے بچوں میں جگر کی پراسرار سوزش کا سبب دریافت کر لیا
26 جولائی 2022برطانوی محققین نے ہیپاٹائٹس یا جگر کی سوزش کی اس پراسرار بیماری کا سبب پیر پچیس جولائی کے روز دریافت کیا، جس سے دنیا کے درجنوں ممالک میں بہت سے کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس بیماری کی وجہ سے بچوں کے جگر بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کم ا ز کم ایک ہزار دس ایسے ممکنہ ہیپاٹائٹس کیسز کی اطلاع دی تھی، جن میں سے گزشتہ برس اکتوبر تک 22 بچوں کی اموات بھی ہو گئی تھیں اور 46 کو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑ گئی تھی۔
پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس پراسرار بیماری کا تعلق کورونا وائرس سے ہے تاہم تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس سنگین بیماری کا تعلق کورونا وائرس کے بجائے دو عام وائرسوں کے مشترکہ انفیکشن سے تھا۔
محققین نے کیا بتایا؟
اسکاٹ لینڈ اور لندن میں بیک وقت دو الگ الگ آزادانہ طبی تحقیقات میں سائنس دانوں کو اس بیماری میں ایک اور وائرس کے ملوث ہونے کے شواہد ملے۔ انہوں نے بتایا کہ AAV2 (ایڈینو سے وابستہ وائرس 2) نے ان بیماریوں میں اہم کردار ادا کیا اور یہ تمام مریضوں میں سے 96 فیصد میں موجود تھا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ AAV2 عام طور پر بیماری کا سبب نہیں بنتا اور کسی دوسرے 'مددگار‘ وائرس کی موجودگی کے بغیر یہ اپنی تعداد میں اضافہ بھی نہیں کر سکتا۔
دونوں طبی ٹیموں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یا تو AAV2 اور ایک ایڈینو وائرس، یا چند کیسز میں ہیرپس وائرس HHV6 کے ساتھ مشترکہ انفیکشن ہی جگر کی اس شدید بیماری کی وجہ بنی۔
اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ریسرچ کی قیادت کرنے والی یونیورسٹی آف گلاسگو میں متعدی امراض کی پروفیسر ایما تھامسن نے ایک بیان میں کہا کہ AAV2 وائرس کی موجودگی بچوں میں نامعلوم ہیپاٹائٹس سے منسلک ہے۔
لیکن انہوں نے اس بارے میں بھی خبردار کیا کہ یہ ابھی تک یقینی بات نہیں ہے کہ آیا AAV2 وائرس اس بیماری کا سبب بن رہا ہے یا بنیادی طور پر یہ ایڈینو وائرس انفیکشن کے لیے بائیو مارکر (باہمی رکن) تھا، جس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن یہ بنیادی عامل (بیماری پھیلانے والا جرثومہ) تھا۔
یہ دونوں مقالے آن لائن پوسٹ کیے گئے ہیں اور طبی تحقیقی جرائد میں شائع ہونے سے پہلے جائزے کے منتظر ہیں۔
سائنس دان اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟
اسکاٹ لینڈ اور لندن دونوں مقامات پر طبی مطالعوں میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں اور ان لوگوں پر تحقیق کی گئی، جنہیں ہیپاٹائٹس نہیں ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ AAV2 زیادہ تر ان لوگوں میں موجود تھا، جنہیں یہ بیماری ہوئی تھی جبکہ ان لوگوں میں یہ موجود نہیں تھا، جنہیں یہ بیماری نہیں ہوئی تھی۔
اسکاٹش مطالعے میں ان بچوں کے جینز کا مزید تجزیہ کیا گیا، جنہیں یہ بیماری تھی اور ان پر بھی جنہیں یہ بیماری نہیں تھی اور انسانی جسم میں پائے جانے والے لیوکوسائٹ اینٹیجن (Leukocyte Antigen) میں فرق کو دیکھتے ہوئے یہ وضاحت کی جا سکتی تھی کہ دیگر بچوں کے مقابلے میں کچھ بچے زیادہ حساس کیوں ہوتے ہیں۔
دونوں ٹیموں نے حالیہ یا اس سے پہلے کی کووڈ سارس ٹو انفیکشن کو براہ راست اس بیماری کی وجہ قرار دیا۔
مریضوں کے جگر میں کوئی کورونا وائرس نہیں پایا گیا جب کہ اسکاٹ لینڈ کے مطالعے سے پتا چلا کہ دو تہائی مریضوں میں کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود تھیں۔
مزید تحقیق کی ضرورت
یہ واضح نہیں ہے کہ ہیپاٹائٹس کے کیسز میں حال ہی میں اضافہ کیوں ہوا لیکن دونوں ٹیموں نے اس امکان پر زور دیا کہ لاک ڈاؤن سے بچوں میں قوت مدافعت کم ہو سکتی ہے یا پھر وائرس کے پھیلاؤ کے طریقے بھی اس کی وجہ ہو سکتے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی میں پیڈیاٹرک ہیپاٹالوجی کی پروفیسر ڈیرڈری کیلی کے مطابق، ''میرے خیال میں یہ ان کیسز کے لیے ایک قابل فہم وضاحت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 'کو انفیکشن‘ اس کی اہم وجہ ہے۔ کو انفیکشن ایک ہی بیماری کے مختلف قسم کے جراثیم سے ایک جیسی بیماری سے متاثر ہونے کو کہا جاتا ہے۔
انہوں نے تاہم کہا، ''یہ سمجھنے کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے کہ کچھ بچوں میں یہ بیماری اتنی شدید کیوں ہو جاتی ہے کہ ان کو جگر کی پیوند کاری کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔‘‘
تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کرنے والی پروفیسر ایما تھامسن کا خیال ہے کہ AAV2 کی موسمی گردش کے بارے میں مزید سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جس پر بالعموم نگاہ نہیں رکھی جاتی ہے۔ ان کا کہناتھا، ''یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایڈینو وائرس اپنی انفیکشن کے عروج پر ہو اور اسی وقت AAV2 وائرس کی انفیکشن کا بھی عروج ہو، جس سے حساس چھوٹے بچوں میں ایسے ہیپاٹائٹس کے غیر معمولی کیسز سامنے آئے ہوں۔‘‘
ج ا / م م (اے ایف پی)