محمود عباس کی مقبولیت حماس کے لیے پریشانی کا باعث
27 ستمبر 2011اگلے ہفتے کے دوران حماس اور الفتح کے درمیان مشترکہ حکومت سازی کی تعطل کی شکار بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے والا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ 23 ستمبر کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی ریاست کے لیے ممبر شپ کی درخواست جمع کروانے سے پیشتر فلسطینیوں میں ان کے عزت و وقار میں جو اضافہ ہوا ہے، اس باعث وہ انتہاپسند تنظیم حماس کے ساتھ بات چیت میں بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ الفتح کے خیال میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والی بات چیت کا مینڈیٹ اس بار وسیع ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک حماس اور الفتح کے درمیان مذاکرات کا نیا سلسلہ بھی ثمر بار ہونے کا امکان کم ہے۔ جنرل اسمبلی میں محمود عباس نے اپنی تقریر میں مذاکرات کے تناظر میں حماس کے ساتھ مستقبل کے سیاسی تصور میں شراکت کا تذکرہ کرنے کے علاوہ فلسطین کے مستقبل کی بات بھی کی۔
فلسطینی علاقوں بشمول مشرقی یروشلم میں محمود عباس کے اس اقدام کو فلسطینی اتھارٹی کی پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔ عباس نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے عمل سے اجتناب کیا۔ اس کے علاوہ اوباما انتظامیہ کے اس پریشر کو بھی برداشت کیا جو ممبر شپ کے حصول کی درخواست جمع نہ کروانے کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔
غزہ میں حماس کی انتظامیہ نے ان تمام ٹیلی وژن پروگراموں پر پابندی عائد کردی تھی جو محمود عباس کی حمایت میں جاری تھے۔ غزہ کے کئی ہوٹلوں میں حماس کے سکیورٹی ایجنٹوں نے داخل ہو کر زبردستی ٹیلی وژن بھی بند کروا دیے تھے تا کہ لوگ محمود عباس کی تقریر نہ دیکھ سکیں۔ انتہاپسند تنظیم حماس کی جانب سے محمود عباس کی کوشش کو بیکار قراردیا گیا۔ تنظیم کے ایک اہم رکن یحییٰ موسیٰ کا خیال ہے کہ محمود عباس خود کو ہیرو بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ جنرل اسمبلی میں ممبر شپ کے حصول کے لیے پہنچے۔
یہ اور بات ہے کہ گزشتۃ چار سالوں کے دوران فلسطینی دھڑوں کے بیچ منافرت اور مخاصمت کی دراڑ مزید گہری ہو چکی ہے۔ حماس اور الفتح اس سال فروری میں ایک مصالحتی ڈیل پر متفق ہوئے تھے لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ دوسری جانب فلسطین کے علاقے غزہ میں حکومت کرنے والی انتہاپسند تنظیم حماس نے محمود عباس کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھیک مانگنے سے تعبیر کیا ہے۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہٰنیہ کے مطابق ریاست کسی قرارداد کی منظوری سے وجود میں نہیں آتی بلکہ اپنی زمین کو آزاد کروانے کے بعد ہی کسی ریاست کا وجود عمل میں آتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: حماد کیانی