1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مراکش ميں بادشاہت، ايک اہم موڑ پر

1 جولائی 2011

شمالی افريقہ کے ملک مراکش ميں آج يکم جولائی کو ايک نئے آئين پر ريفرنڈم ہو رہا ہے۔ اگر عوام کی اکثريت نے اس کے حق ميں رائے دی تو مراکش کے بادشاہ محمد ششم کو اپنے اختيارات کے ايک بڑے حصے سے محروم ہونا پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/11nKk
رباط ميں بادشاہ اور نئے آئين کے حق ميں مظاہرہ
رباط ميں بادشاہ اور نئے آئين کے حق ميں مظاہرہتصویر: AP

مراکش ميں اس سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہيں۔ مراکش کی رباط يونيورسٹی کے ماہر سياسيات لاہجن حداد کا کہنا ہے کہ بادشاہ محمد ششم نے کوئی دو ہفتے قبل اصلاحات کا جو وعدہ کيا تھا اُس سے بادشاہ کی عزت و وقار ميں اضافہ ہوا ہے اور عوامی غصے ميں کمی آئی ہے۔ اُن کے خيال ميں آئين ميں تبديلی ايک صحيح قدم ہے:

’’بادشاہ نے اپنے اختيارات کا ايک بڑا حصہ ترک کر ديا ہے اور انتظاميہ کے بطور حکومت کے کردار کو زيادہ مضبوط بنا ديا ہے۔ نئے آئين کے تحت عدليہ بھی تقريباً آزاد ہوگی۔ يہ جمہوريت کی طرف ايک بڑا قدم ہے۔‘‘

مراکش ايک لمبے عرصے تک بادشاہت رہا ہے اور يہ بادشاہت بڑی سخت طرز کی تھی۔ موجودہ آئين 15 سال پرانا ہے اور اس کے تحت بادشاہ کو اتنے وسيع اختيارات حاصل ہيں کہ وہ ايک مطلق العنان حکمران ہے۔ آج يکم جولائی کو ہونے والے عوامی ريفرنڈم ميں ايک آئينی بادشاہت کو رائج کرنے کے بارے ميں عوام کی رائے معلوم کی جا رہی ہے۔ بادشاہ نے ماہرين کو ايک نئے آئين کی تياری کا کام سونپا تھا۔ اس طرح مراکش کے بادشاہ يہ چاہتے تھے کہ تيونس اور مصر کی طرح مراکش بھی ہنگاموں کی زد ميں نہ آجائے۔

مراکش کے بادشاہ محمد ششم
مراکش کے بادشاہ محمد ششمتصویر: AP

اس سوچ کا يہ نتيجہ ہے کہ بادشاہ محمد ششم اپنے بہت سے اختيارات سے دستبردار ہونے پر تيار ہيں۔ نئے آئين کے تحت ملک کا وزير اعظم اُس پارٹی سے چنا جائے گا، جسے سب سے زيادہ ووٹ مليں گے۔ اس کے علاوہ بادشاہ کو ايک پاک اور مقدس شخصيت کا درجہ حاصل نہيں رہے گا بلکہ وہ صرف ’ناقابل گرفت‘ ہوگا۔ وزير اعظم کو وزراء کے چناؤ اور اُنہيں برخاست کرنے کا اختيار حاصل ہوگا اور عربی کے ساتھ ساتھ بربر زبان’ طمازغ ‘بھی سرکاری زبان ہوگی۔

تاہم ان آئينی اصلاحات کے مخالفين کے خيال ميں يہ ناکافی ہيں۔ 20 فروری کی تحريک، جس کے مظاہروں نے ان اصلاحات کو ممکن بنا‌يا، ان اصلاحات کو قطعی ناکافی سمجھتی ہے۔ اس کی ايک فعال کارکن زينب الرہزوئی نے کہا:

او ٹون

’’ہم نئے آئين کے مخالف ہيں کيونکہ بادشاہ نے آئينی کميشن کا چناؤ خود اپنی مرضی سے کيا ہے۔ اس ليے بہت سے مراکشی شہريوں کے نزديک اُس کے اراکين قابل اعتبار نہيں ہيں۔ نيا آئين اُس صورت ميں جائز ہو سکتا تھا جب کميشن کے اراکين کو عوام منتخب کرتے۔ نيا آئين صرف تمام سطحوں پر بادشاہ کے اختيارات کی تصديق کرتا ہے۔‘‘

مراکش کے بادشاہ محمد سعودی بادشاہ عبداللہ کے ساتھ
مراکش کے بادشاہ محمد سعودی بادشاہ عبداللہ کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa

نئے آئين کے مخالفين اس کے مقابلے ميں اُس نظام کو ترجيح ديتے ہيں جو اسپين ميں رائج ہے اور جس ميں بادشاہ کا کردار علامتی يا نمائندہ ہوتا ہے۔

مراکش ميں بادشاہت اور شاہ محمد ششم کی شخصيت کو وسيع مقبوليت حاصل ہے اور ايسی کوئی تحريک نہيں جو بادشاہ کی معزولی کا مطالبہ کررہی ہو۔

زينب الرہزوئی جيسے لوگ نئے آئين کے اس ليے بھی خلاف ہيں کيونکہ اس ميں بھی اسلام کو رياستی مذہب قرار ديا گيا ہے، ليکن مذہبی آزادی کی ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ وہ مرد اور عورت کے يکساں حقوق کا مطالبہ بھی کرتے ہيں، جبکہ نئے آئين ميں درج ہے کہ مرد اور عورت کو يکساں حقوق تو حاصل ہيں ليکن اسلام کے دائرے ميں۔

رپورٹ: ڈايانا ہدیٰ علی / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

.