مراکش میں بھی سیاسی اصلاحات کا فیصلہ
18 جون 2011جمعہ کی رات کو قوم کے نام نشری تقریر میں مراکش کے بادشاہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے سالوں میں بتدریج اپنی قوم کو جمہوری دستور و پارلیمنٹ کے علاوہ آئینی بادشاہت فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے اختیارات میں قدرے کمی کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس مناسبت سے ایک دستوری ریفرنڈم یکم جولائی کو منعقد کروایا جائے گا۔
نئے دستور اور سیاسی اصلاحات کا عمل شروع ہونے کے بعد وزیر اعظم حکومتی امور کا کلی طور پر نگران ہو گا اور وہی اپنی کابینہ اور اہم حکومتی عہدے داروں کا انتخاب کرے گا۔ خاص طور پر وزارت داخلہ کے مرکزی اور علاقائی سطح پر تعینات ہونے والوں اہلکاروں کا فیصلہ بھی وزیر اعظم کی مرضی پر چھوڑا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ فریضہ شاہ کے ذمہ تھا۔ نئی جمہوری حکومت میں وزیر اعظم کو صدر حکومت کہا جائے گا۔ وزیراعظم ریاست کی پالیسی کو ہفتہ وار حکومتی کونسل میں زیر بحث لانے کے پابند ہوں گے۔ تقریباً تین ماہ قبل مراکش کے شاہ نے وزیر اعظم کے اختیارات، پارلیمنٹ کی بالا دستی اور عدلیہ کے دائرہ کار کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ شاہ کے تصرف میں ملکی سلامتی، فوجی اور مذہبی امور کی نگرانی ہو گی۔
اسی سال مارچ میں شاہ محمد ششم نے وسیع تر جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مراکش کے مختلف علاقوں کو مزید اختیار وقت کے ساتھ تفویض کر دیے جائیں گے تا کہ مراکش جمہوری اور ترقیاتی اقدار کا ماڈل بن سکے۔
مراکش میں بھی بیس فروری سے حکومت مخالف جمہوریت پسندوں کی تحریک کا سلسلہ محدود سطح پر جاری ہے۔ اس تحریک کا نام بھی فروری ٹوئنٹی موومنٹ رکھا گیا ہے۔
جمہوری اصلاحات کے فیصلے کے حوالے سے حکومت مخالف سرگرم جمہوریت نوازوں کا کہنا ہے کہ شاہ محمد کے اقدامات ناکافی ہیں اور وہ قدرے مایوس ہوئے ہیں۔ حکومت مخالف ایک اہم سیاسی رہنما نجیب شوکی کا کہنا ہے کہ شاہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے اقدامات ان کے مطالبات کے سامنے بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔
مراکش کو سخت اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کے اندر شرح بے روزگاری اور افراط زر بہت زیادہ بلند ہو چکی ہے۔ ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے غربت کا گراف بھی بلند ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف