مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت آج ہو رہی ہے
1 جنوری 2014پاکستانی طالبان بارہا پرویز مشرف کو قتل کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اس تناظر میں اسلام آباد میں بدھ کو مقدمے کی سماعت کے موقع پر سکیورٹی سخت ہے۔
ستّر سالہ سابق ملٹری حکمران پرویز مشرف پر یہ مقدمہ نومبر 2007ء میں ان کے دورِ حکومت میں نافذ کی گئی ہنگامی حالت پر قائم کیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کی لیگل ٹیم اور انہوں نے خود اپنے خلاف الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ یہ ان کے سیاسی مخالفین نے اپنے مفادات کے لیے لگائے ہیں۔
ان پر یہ الزامات ثابت ہوئے تو انہیں عمر قید یا سزائے موت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت ایک خصوصی ٹریبیونل کر رہا ہے۔ ابتدائی سماعت 24 دسمبر کو ہونا تھی، جو اُس راستے پر دھماکا خیز مواد ملنے کے بعد روک دی گئی تھی، جہاں سے گزر کر پرویز مشرف عدالت جانے والے تھے۔
پیر کو ایک مرتبہ پھر اسی راستے پر دھماکا خیز مواد برآمد ہوا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ یہ مواد وہاں کس نے چھوڑا۔ رواں برس اپریل میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب پرویز مشرف بے نظیر قتل کیس میں عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ اس وقت اسلام آباد کے نواح میں ان کے فارم ہاؤس کے باہر ایک گاڑی کھڑی پائی گئی تھی جس میں دھماکا خیز مواد چھپایا گیا تھا۔
پرویز مشرف نے اتوار کو غیر ملکی میڈیا سے بات چیت میں اپنے خلاف غداری کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ملکی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’مجھے جو فیڈ بیک ملی ہے اس کے تحت بلاشبہ پوری فوج ۔۔۔ اس معاملے میں مکمل طور پر میرے ساتھ ہے۔‘‘
فوج نے اس حوالے سے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کو سویلین عدالت کے ہاتھوں رسوا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔
پرویز مشرف کو مارچ میں وطن لوٹنے کے بعد سے متعدد مقدمات اور الزامات کا سامنا ہے، جن میں دسمبر 2007ء میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی شامل ہے۔