مشرف کے خلاف مقدمہ، قانونی چارہ جوئی کا آغاز
26 جون 2013بدھ کے روز ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علی زئی نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق حکومت کا تحریری مؤقف عدالت میں جمع کرایا۔ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کی تحقیقات کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو سینئر افسران پر مشتمل خصوصی انکوائری ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کریں۔
وفاقی حکومت کے مطابق سنگین غداری کے مقدمے کی تحقیقات ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے تاہم وزیراعظم انکوائری اور تحقیقات کی جلد تکمیل اور نگرانی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے پر بھی غور کررہے ہیں۔
حکومتی مؤقف سامنے آنے کے بعد بعض سیاسی اور قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں وکلاء کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چئیر مین قلب حسن کا کہنا ہے، ’’ تین نومبر کی ایمرجنسی کو دیکھا جائے تو یہ اقدام بہت سارے لوگوں کے مشورے سے ہوا ہے، جو تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کرنے کے حکم کے شروع میں بھی لکھا ہوا ہے۔ اب وہ کون سی وجوہات ہیں، اس کی توجیح کیا تھی، جس کے تحت یہ ہوا۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ ‘‘
دوسری جانب اپوزیشن جماعت تحریک انصاف نے حکومتی اقدام کو ایک مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ حکومت اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے جنرل مشرف کے مسئلے کو ہوا دے رہی ہے۔ تاہم اب تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل حامد خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے حامد خان نے کہا، ’’میں نہیں سمھجتا کہ اس میں کوئی پنڈورا باکس کھلتا ہے اور اگر کھلنا ہے تو کھل جائے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک فوجی آمر کا ٹرائل کیا جائے تاکہ آئندہ بار بار ملک کے آئین کے ساتھ جو مذاق ہو رہا ہے وہ بند ہوجائے۔‘‘
سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے حکومتی مؤقف کے مطابق جنرل مشرف کے خلاف تحقیقات مکمل ہونے پر وفاقی حکومت فوجداری قانون کے تحت شکایت درج کرائے گی اور خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جس میں اس جرم کا ٹرائل ہوگا۔
حکومتی دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کا وہ خط بھی منسلک کیا گیا ہے، جو انہوں نے سیکرٹری داخلہ کو ارسال کیا ہے۔ خط میں سیکرٹری داخلہ کو تحقیقات میں پیشرفت سے متعلق ہر پندرہ روز کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
تاہم ماہر قانوں ڈاکٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ حکومت نے عدالت میں ایک ایسا مؤقف پیش کیا ہے، جو قانونی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ یہ ایک کوشش ہے کہ جو عمل ایک دن میں شروع ہوسکتا ہے یا ایک ہفتے میں شروع ہو سکتا ہے اس کو طوالت بخشی جائے اور یہ طوالت بے جا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عندیہ مقدمہ شروع کرنے کا نہیں ہے بلکہ اس کو گورکھ دھندے میں پھنسانے کا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ کل (جمعرات ) کو جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کرائے جانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عاطف بلوچ