مشرق وسطیٰ تنازعہ: دو ریاستی حل کی راہ میں ایک اور رکاوٹ
28 دسمبر 2015فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت اسرائیلی حکومت سے حاصل کردہ اعداد وشمار پر مبنی اس رپورٹ میں واچ ڈاگ گروپ Peace Now نے کہا ہے کہ اسرائیل کی رہائشی مکانوں کی تعمیر کی وزرات مغربی اُردن میں 55,548 یونٹس کی تعمیر کے منصوبے پر از سر نو کام کر رہی ہے۔ ان میں دو نئی یہودی آبادکاری منصوبے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 8,300 گھر غرب اُردن کے متنازعہ زون E1 میں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
غرب اُردن کے متنازعہ زون E1 اور اس سے متصل علاقے معلہ آدومیم نامی یہودی بستی مشرقی یروشلم اور اسرائیل کے مابین ایک بفر کی حیثیت رکھتی ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ مغربی اُردن کی تقسیم اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔
گروپ Peace Now لکھتا ہے،’’معلہ آدومیم اور زون E1 متنازعہ مشرق وسطیٰ کے دو ریاستی حل کے تناظر میں حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے‘‘۔ اس گروپ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے، ’’ان وجوہات کے پیش نظر جب بھی اسرائیلی رہنماؤں کی طرف سے زون E1 میں اپنے تعمیراتی منصوبوں کے فروغ کی کوششیں کی جاتی ہیں اُن کی عالمی برادری سخت مذمت کرتی ہے۔‘‘
امریکا، اقوام متحدہ اور یورپی یونین یوں تو اسرائیل کی تمام یہودی بستیوں کی تعیمر کے منصوبوں کی مخالفت کرتے ہیں تاہم ان سب کی طرف سے، خاص طور سے زون E1 کے یہودی بستیوں کی تعیمر کی منصوبہ بندی پر آواز بُلند کی گئی ہے۔
عالمی برادری کے دباؤ میں آکر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 2013 ء میں 1,200 گھروں کی تعمیر کو روکنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اب واچ ڈاگ گروپ Peace Now نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی وزارت تعمیراتی امور نے اب آرکیٹکٹس یا معماروں کو نیا بُلو پرنٹ تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
پیر کے روز منظر عام پر آنے والی اس واچ ڈاگ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہودی بستیوں کی تعیمر کی منصوبہ بندی مشرق وسطیٰ کے اس دیرینہ تنازعے کے دو ریاستی حل کے امکانات کی نفی کرتا ہے‘‘۔ واچ ڈاگ نے کہا ہے کہ ویسے بھی اس منصوبے کی تکمیل حصول میں ابھی کئی سال لگیں گے۔
انگریزی زبان میں شائع ہونے والی واچ ڈاگ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کو ابھی وزارت دفاع سے منظور ہونا باقی ہے جس کے بعد یہ منصوبہ پلاننگ اتھارٹی کے عمل سے گزرے گا۔