مشہور مسلم اسکالر طارق رمضان پر جنسی زیادتی کے الزامات
10 نومبر 2020سوئٹزرلینڈ کے شہری طارق رمضان لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام کر رہے تھے کہ 2017 ء میں فرانس میں ان کے خلاف ریپ کے الزامات سامنے آنے کے بعد انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کی جاب چھوڑنا پڑی تھی۔ اب جینیوا میں کورٹ میں پیش ہونے کے بعد طارق رمضان نے کوئی بیان نہیں دیا۔ استغاثہ نے کہا ہے کہ وہ پورے ہفتے مسلم اسکالر طارق رمضان پر لگے الزامات کی چھان بین کریں گے۔
ایک نو مسلم خاتون کی طارق رمضان سے ملاقات ایک کتاب پر دستخط کی تقریب کے موقع پر ہوئی تھی۔ اسی نومسلم خاتون نے طارق رمضان پر 2008 ء میں جینیوا کے ایک ہوٹل کے کمرے میں جنسی حملے، مار پیٹ اور توہین کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ شکایت کنندہ کے وکیل رابرٹ اسائل نے کہا،''مقدمے کی سماعتیں ہماری موکل پر ہونے والے خوف ناک حملوں کی تصدیق کریں گی۔ یہ حملے پُرتشدد اور جنسی نوعیت کے تھے۔‘‘
ماضی میں سوئٹزرلینڈ میں رونما ہونے والے اس واقعے کی فرانس میں ہونے والی سماعتوں کے دوران 58 سالہ اسکالر طارق رمضان نے اس خاتون پر دروغ گوئی کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے بیانات میں تضاد ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اسلامیات کے ماہر طارق رمضان کو اب عدالتی کارروائی کا سامنا اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'Le devoir de vérité، 'سچائی کا فرض‘، میں متاثرہ خاتون کا نام درجنوں بار شائع کیا ہے۔
اس کے علاوہ ٹیلی وژن پر اپنے ایک پروگرام کے دوران اور اپنی مذکورہ کتاب کی پریس ریلیز میں بھی رمضان نے متاثرہ خاتون کا نام فاش کیا۔ فرانس میں طارق رمضان پر اس متاثرہ خاتون کے علاوہ مزید چار دیگر خواتین کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے سبب وہ دس ماہ زیر حراست بھی رہے۔ رمضان نے ہمیشہ خود پر لگے ان الزامات کی تردید کی ہے اور انہیں شہرت کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو استغاثہ نے طارق رمضان کے خلاف آٹھ ہزار یورو کے جرمانے کی درخواست کی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اس رقم کا نصف حصہ طارق رمضان کی کتاب کے پبلشر کے لیے معطل کر دیا گیا۔
طارق رمضان چار بچوں کے باپ ہیں۔ ان کے دادا حسن البنا نے مصر کی سیاسی پارٹی اخوان المسلمون کے بنیاد رکھی تھی۔ طارق رمضان پر فرانس میں جنسی زیادتیوں کے چار واقعات کا الزام تو ہے لیکن یہ الزامات اس قدر کمزور ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر بھی اب تک مقدمہ نہیں چل سکا ہے۔
ک م/ اا (ڈی پی اے،اے ایف پی)