مصر: البرادعی کی دستبرداری سے سیاسی صورت حال مزید گھمبیر
16 جنوری 2012مصر میں عبوری فوجی حکومت کی جانب سے منتخب عوامی نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی میں چھ ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے تاہم ملکی سیاسی حالات غیر یقینی صورت حال کا عندیہ دے رہے ہیں۔
اس ماہ کی پچیس تاریخ کو مصری عوام اپنے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ان کے کئی دہائیوں پر محیط اقتدار کے خاتمے کی پہلی سالگرہ منائیں گے۔ مبصرین کی رائے میں حسنی مبارک کے خلاف تحریک میں جو بلند دعوے کیے گئے تھے، ان کو عملی شکل دینا تو دور کی بات ہے، اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کا قیام بھی بہت مشکل کام دکھائی دے رہا ہے۔
مصر میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ عبوری فوجی حکومت کو طویل مدت تک اقتدار میں رکھنے کے لیے مختلف سیاسی اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسندوں کی کامیابی کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ لبرل فوج کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو مصر میں موجودہ بحران شدید تر ہو سکتا ہے۔
اب اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سابق سربراہ اور نوبل انعام یافتہ محمد البرادعی کی صدارتی دوڑ سے دستبرداری کے اعلان سے مصر کے لبرل اور بائیں بازو کے حلقوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ تاہم بعض لبرل حلقوں کی رائے ہے کہ البرادعی کی دستبرداری کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مصر میں جمہوریت کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ البرادعی کے حامیوں کی رائے ہے کہ ملک کی یہ اہم سیاسی شخصیت عوامی سطح پر جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں آئندہ بھی جاری رکھے گی۔
مصری پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسند اخوان المسلمین کے اتحاد نے پارلیمان کی 498 نشستوں میں سے 50 فیصد نشستیں حاصل کی ہیں۔ ایک اور اسلامی جماعت کے پاس 20 فیصد نشستیں ہیں جبکہ لبرل اور بائیں بازو کی جماعتوں کے پاس باقی ماندہ 20 فیصد سیٹیں ہیں۔ اخوان المسلمین نے اب تک یہ واضح نہیں کیا ہے وہ کس صدارتی امیدوار کی حمایت کرے گی تاہم مبصرین کی رائے میں اس حوالے سے مصر کے فوجی جرنیلوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک