مصر: عوام کے پاس السیسی کا انتخاب واحد راستہ
27 مئی 2014مصر میں کل پیر 26 مئی کو شروع ہونے والے صدارتی انتخابات کا آج دوسرا اور آخری دن ہے لیکن ان انتخابات کو ایک منصفانہ سیاسی مقابلہ سمجھنے والا کوئی بھی شخص اگر اس انتخابی عمل کو ذرا غور سے دیکھے گا تو اُسے مایوسی ہی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخابات مبارک دور کے روایتی ریفرنڈمز کی یاد دلاتے ہیں۔ سابق فیلڈ مارشل اور آج کل کے بھی حقیقی حکمران عبدالفتح السیسی کی فتح عملاً ابھی سے طے ہے کیونکہ بیرونِ ملک آباد مصریوں کی ریکارڈ 94 فیصد تعداد کے ووٹ پہلے ہی السیسی کو مل چکے ہیں۔ گزشتہ دس مہینوں کے واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی بھی طرح سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت ہی غیر متوقع ہے۔
اپوزیشن کو برا بنا کر راستے سے ہٹا دیا گیا
جولائی 2013ء میں مرسی کو زبردستی اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے نہ صرف ملکی قیادت معزول کر دی گئی بلکہ اخوان المسلمون کی طرف سے منظور کروائے گئے آئین کو بھی معطل کر دیا گیا۔ پھر السیسی اور اُن کی ساتھی فوجی قیادت نے اپنی مرضی کے اراکین پر مشتمل ایک کمیشن بنایا اور اُسے نیا آئین بنانے کا کام سونپ دیا۔ رائے عامہ کی شرکت کے بغیر اور سیاسی جماعتوں کی نہ ہونے کے برابر نمائندگی کے ساتھ تیار ہنے والے اس نئے آئین نے فوج کی ضروریات کے عین مطابق نیل کے کنارے ایک ایسی ’جمہوریت‘ کی بنیادیں فراہم کر دیں، جس کی پوری باگ ڈور آئندہ فوج کے ہاتھوں میں ہو گی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا، اُس کا 25 جنوری 2011ء کو شروع ہونے والے انقلاب کے دوران لگائی گئی آزاد جمہوریت کی امیدوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ایک طرف سرکاری میڈیا نے اخوان المسلمون کے خلاف منظم مہم چلاتے ہوئے اُنہیں ایسی تاریک قوتیں اور مجرم بنا دیا، جو اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ تھے تو دوسری طرف آزاد خیال اور سیکولر اپوزیشن کو بھی، جو خاص طور پر انقلابی اور جمہوری کارکنوں پر مشتمل تھی، بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔
دریں اثناء انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصر کی جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور منصوبہ بندی کے ساتھ لوگوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اخوان المسلمون کے مبینہ اراکین کے خلاف من مانی عدالتی کارروائیاں اور اُنہیں موت کی سزائیں اس کے علاوہ ہیں۔
السیسی فوج کی طرف سے امیدوار
دیکھا جائے تو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے جانے والے مصریوں کے پاس چُننے کے لیے ہے ہی کچھ نہیں کیونکہ حقیقی اپوزیشن پر یا تو پابندی ہے یا پھر اُسے ہراساں کیا جا چکا ہے۔ واحد حریف امیدوار حمدین صباحی کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، سرکاری میڈیا کی پراپیگنڈا مشینری کے خلاف کچھ کرنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اِن غیر جمہوری انتخابات کو جمہوری ہونے کی سند دینے والے شخص کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
السیسی خود کو عوام کا خادم کہنا پسند کرتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے، وہ فوج کے آدمی ہیں اور رہیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام ریاستی ادارے اُن کی حمایت کر رہے ہیں، جن میں سیاست میں لتھڑی ہوئی عدلیہ، بدنام وزارتِ داخلہ، بیوروکریسی اور جارحانہ پراپیگنڈا کرنے والے ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں۔ اور تو اور سلفی جماعت ’نُور پارٹی‘ بھی مصر کے نئے ’مردِ آہن‘ کی پشت پناہی کرنے والوں میں شامل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ جماعت وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے یا پھر سعودی عرب کے دباؤ کے باعث ایسا کر رہی ہے۔
السیسی نے ایک ایسا جابرانہ ڈھانچہ بحال کر دیا ہے، جو مبارک دور کے پولیس ڈھانچے کو بھی مات کرتا ہے۔ وہ سیاسی تجربہ نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن کے پاس مصر کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ ہے۔ وہ ملک کے سنگین معاشی مسائل کا کوئی حل پیش کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
مصر کے حالات اور بیرونی دنیا
مصر کے اس نئے غیر جمہوری ڈھانچے کو عرب دنیا کی جمہوریت مخالف قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستیں نئی مصری قیادت کی حمایت کر رہی ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ اُن کی عدم اطمینان کی شکار نوجوان نسل مصری انقلاب سے متاثر ہو کر زیادہ آزادی کے مطالبات کرنے لگے۔
چونکہ مصر میں جمہوریت کی منزل اب بہت دور جا چکی ہے اور جلد وہاں کسی بہتری کے آثار نظر نہیں آتے، اس لیے یورپی یونین کو نئی مصری حکومت کے ساتھ اشتراکِ عمل کے لیے واضح شرائط رکھنی چاہییں اور جولائی 2013ء کی فوجی بغاوت کو ہرگز جائز قرار نہیں دینا چاہیے۔ یورپی یونین کو صدارتی انتخابات کے موقع پر اپنے مبصرین بھی وہاں نہیں بھیجنے چاہییں تھے کیونکہ ان کی وہاں موجودگی کا فائدہ صرف اور صرف فوج اور مقتدر طبقے سے تعلق رکھنے والی نئی قیادت کو ہی ہو گا۔