مصر میں مظاہرے، پارلیمنٹ کا گھیراؤ
10 فروری 2011مصری عوام کی جانب سے صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں۔ نائب صدر عمر سلیمان کی جانب سے یہ سلسلہ بند کیے جانے سے متعلق متنبہ بیان کے باوجود مظاہروں کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ قاہرہ کے قرب و جوار کے علاقوں میں احتجاج پرتشدد روپ اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ملک کے جنوب مغربی نیو ویلی صوبے میں مظاہروں کے دوران چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔
مظاہروں کا مرکز قاہرہ کا تحریر اسکوائر بنا ہوا، جہاں ابھی تک ہزاروں افراد جمع ہیں۔ بعض تو راتیں بھی وہیں بسر کر رہے ہیں۔ خبررساں ادارے اے پی کا کہنا ہے کہ بدھ کو احتجاج میں بجلی فراہم کرنے والے سرکاری ادارے اور عجائب گھروں کے ملازمین نے بھی حصہ لیا۔ تاہم احرام مصر کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کی جانب سے بھی مصر پر دباؤ بدستور برقرار ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ نے اب کہا ہے کہ قاہرہ حکومت نے تاحال ایسے اقدامات نہیں کیے، جن سے عوام مطمئن ہوں۔
تاہم قاہرہ حکومت کا کہنا ہے کہ فوری اصلاحات سے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ مصر کے وزیر خارجہ احمد ابو الغیث نے امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کے ساتھ انٹرویو میں امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے بیان پر حیرت کا اظہار کیا، جنہوں نے مصر کے ایمرجنسی لاء کے فوری خاتمے پر زور دیا ہے۔
ابو الغیث نے کہا،’ جب آپ کہتے ہیں، فوراﹰ، ابھی، اسی وقت، تو یوں لگتا ہے کہ آپ مصر جیسے عظیم ملک پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ مصر ایک طویل عرصے سے امریکہ کا دوست ملک ہے۔‘
اُدھر مظاہرین اور انسانی حقوق کے گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مصر کی فوج نے حکومت مخالف سینکڑوں مظاہرین کو خفیہ حراست میں لیا ہے، جن میں سے بعض پر تشدد بھی کیا گیا۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی روزنامہ گارڈیئن نے اس حوالے سے شہادتیں اکٹھی کی ہیں، جن میں فوج پر الزام لگایا ہے۔
مصر کی فوج کا دعویٰ ہے کہ ملک کو درپیش بحران میں اس کا کردار غیرجانبدارانہ ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ