چین میں مصر سے متعلقہ خبروں کی تشہیر پر پابندی
9 فروری 2011چینی صوبے گوئی ژُو میں مختف تنظیموں سے وابستہ افراد نے مصر اور تیونس میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں معلوماتی مواد تقسیم کرنے کی کوشش کی، تاہم پولیس کی جانب سے اُنہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملک میں ’غیر معمولی حالات‘ ہیں۔ دوسری جانب مظاہروں کے منتظمین کو تین ہزار یوآن بھی ادا کیے گئے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے وابستہ چن شی نے بتا یا کہ پولیس کی طرف سے یہ ادائیگی اِس معلوماتی مواد کی طباعت پر اٹھنے والے اخراجات کی تلافی کے طور پر کی گئی۔
چن کے مطابق کارکنوں کی طرف سے پیر کو ایک دوسرے شہر گوئی ژانگ میں بھی مصر سے متعلق معلوماتی کتابچے تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور پولیس کی جانب سے دوبارہ ایسا کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ چن نے بتایا، ’’ہم پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے عرب ممالک کے حالات سے چینی عوام کو آگاہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن پولیس کی طرف سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ملک میں حالات ’غیر معمولی‘ ہیں۔ چینی حکام نہیں چاہتے کہ عوام کو شمالی افریقہ کی صورتحال سے آگاہی حاصل ہو۔‘‘
تیونس اور مصر میں جاری حکومت مخالف مظاہرے دنیا بھر کے میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ تیونس میں جاری مظاہروں میں 230 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال مصر میں بھی ہے۔
چن کے مطابق چین میں عرب ممالک میں جاری مظاہروں سے متعلقہ معلومات انٹرنیٹ پر بھی سنسر کی جا رہی ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی عرب ممالک کے موجودہ حالات کو ایک ممکنہ چیلنج کے طور پر دیکھتے ہوئے پریشان ہے۔ بیجنگ حکومت کا خیال ہے کہ ایسے حالات چین میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
چینی سرکاری اخبارات اور ٹیلی وژن مصر اور تیونس میں ہونے والے واقعات کی رپورٹنگ تو کر رہے ہیں لیکن آن لائن خبریں پڑھنے والے کسی بھی موضوع پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ویب پورٹل netease.com پر ایک پیغام لکھا گیا ہے کہ تبصرہ سیکشن بند کر دیا گیا ہے۔
چن کہتے ہیں، ’’چینی حکومت میں اعتماد کی کمی ہے۔ ایک واحد پارٹی گزشتہ 62 برسوں سے ملک میں آمریت جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ آج بھی 1.3 بلین چینی عوام کو بندوق کے زور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔‘‘
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی