مصری فوجيوں کی ہلاکت کے بعد مصر اور اسرائيل ميں کشيدگی
22 اگست 2011مظاہرے کے دوران ہزاروں مصری فوجی اور پوليس کا عملہ اسرائيلی سفارتخانے کے گرد پہرہ دے رہا تھا۔ مصر کے سابق رہنما حُسنی مبارک کے دور ميں اسرائيلی سفارتخانے کے قريب ہونے والے کسی بھی قسم کے مظاہرے کو سکيورٹی فورسز بہت تيزی سے منتشر کر ديتيں۔
يہ بحران اُس وقت شروع ہوا، جب اسرائيلی فوجيوں نے پچھلی جمعرات کو جنوبی اسرائيل ميں آٹھ افراد کو قتل کرنے والے ايک فلسطينی گروپ کا تعاقب کيا۔ اسرائيل کا کہنا ہے کہ يہ افراد مصر کے صحرائے سينا سے غزہ کی پٹی ميں داخل ہوئے تھے۔
عرب ليگ نے، جس کا صدر دفتر قاہرہ ميں ہے، ايک بيان ميں مصری فوجيوں پر اسرائيلی حملے کی مذمت کی۔ بيان ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ اسرائيل پر اس جرم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ليکن اس بات کی علامتيں بھی سامنے آ رہی ہيں کہ اسرائيل اور مصر دونوں، سابق صدر مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پيدا ہونے والے اس سب سے زيادہ سنگين بحران کو دور کرنے کی کوشش ميں مصروف ہيں۔ مصر نے ہفتہ کے روز يہ اعلان کيا تھا کہ وہ مصری فوجيوں کی ہلاکت کے بعد اسرائيل سے اپنے سفير کو واپس بلا لے گا، ليکن يہ غير واضح ہے کہ سفير کو واقعی واپس بلايا جا رہا ہے يا نہيں۔ اسرائيلی وزير دفاع ايہود باراک نے کل کہا کہ اسرائيل کو مصری فوجيوں کی ہلاکت پر افسوس ہے۔ انہوں نے فوج کو مصر کے ساتھ مل کراس واقعے کی تحقيقات کا حکم ديا ہے۔ کل اتوارکی شام کو مصر کے رياستی ٹيلی وژن نے يہ خبربھی نشر کی کہ اسرائيلی صدر شيمون پيريز نے تل ابيب ميں مصری سفير سے ٹيليفون پر بات کی اور اپنے افسوس کا اظہار کيا، جس پر مصر ميں محتاط رد عمل ظاہرکيا گيا۔ قاہرہ ميں ائر پورٹ کے ذرائع نے کہا کہ اسرائيل کے اعلٰی افسران کا ايک وفد ايک نجی طيارے کے ذريعے کل مصر پہنچا، جس کی تشہير سےگريز کيا گيا۔
امريکی نائب وزيرخارجہ جيفری فيلٹ مين اور مشرق وسطٰی ميں قيام امن کے ليے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہء کار رابرٹ سيری نے کل مصر پہنچ کر مصری وزير خارجہ کامل امر، خفيہ سروس کے سربراہ مراد مُوافی اور دوسرے مصری حکام اور عرب ليگ کے سيکرٹری جنرل نبيل العربی سے بات چيت کی۔ ايک بيان ميں کہا گيا کہ سيری کو ’’مصری سکيورٹی عملے کی ہلاکت پر افسوس اور خاص طور پر غزہ اور جنوبی اسرائيل ميں بڑھتی ہوئی کشيدگی پر تشويش ہے۔‘‘
مصر کی حکمران فوجی کونسل کے قائد فيلڈ مارشل حسين طنطاوی نے کل اتوار کو مصری فوجيوں کی ہلاکت کے مسئلے پر غور کرنے کے ليے وزراء کا ايک ہنگامی اجلاس طلب کيا۔ ہنگامی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بيان ميں اسرائيل کی غير معمولی مذمت کرتے ہوئے کہا گيا کہ مصری خون سستا نہيں اور حکومت اُس کے بيکار بہنے کی اجازت نہيں دے گی۔
اس واقعے سے مصر کے حکمران جنرلوں کو درپيش الجھن واضح ہو گئی ہے: اُنہيں ايک طرف تو اسرائيل کے ساتھ سن 1979 کے امن معاہدے کی پابندی کرنا ہے اور دوسری طرف اُنہيں مصر ميں اسرائيل کی عام مخالفت کا سامنا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی