آج کل مصنوعی ذہانت (AI) کاخوب بول بالا ہے۔ سائنسدان تو ظاہر ہے کہ اس موضوع پر بحث کرتے رہتے ہیں لیکن عام لوگوں میں بھی AI کے لیے بے حد دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اور یہ بات اب تقریباً ہر حلقے میں زیر بحث ہوتی ہے، لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالوں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ نوجوان نسل AI کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بہت متحرک ہے اور اس غیر معمولی دلچسپی کی وجہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ اوّل تو ایسے لوگ ہیں جو معلومات کی خاطر اور اپنے علم میں اضافے کی خواہش رکھتے ہیں۔ دوئم ایسے لوگ بھی ہیں، جو اس کا غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا سکیں۔ اس طرح کے لوگوں کاعمل پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یہاں چند مثالیں دینا بجا ہو گا، حال ہی میںAI کے ذریعےسے ایک پروگرام تخلیق کیا گیا ہے جس کو چیٹ جی پی ٹی ChatGPT کہتے ہیں اور اسکے ذریعے سے قارئین طویل مضامین اور تھیسس وغیرہ سے لے کر ایک مختصر سی عبارت چند لمحوں میں بنا سکتے ہیں یا یوں کہیے کہ نکال سکتے ہیں۔ یہ یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں لگتا لیکن کمپیوٹر اسکرین پر نمودار ہونے والی عبارت خود بخود اسکے پڑھنے والے کے ذہن میں داخل نہیں ہو جاتی ہے یعنی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ نقل کے لیے بھی عقل تو لازمی چاہیے۔ یہ ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو AI بہت کار آمد شے ہے۔AI کے ذریعےمعلومات حاصل کر کے اس کو اپنی سوچ اور سمجھ کو استعمال کرنے کے بعد اور معلومات کی جانچ پڑتال کر کے مقالہ تصنیف کر یں۔ AI سے بہترین استفادہ اس وقت ہوگا، جب انسانی ذہانت اورشعور برسرِاقتدار رہے اور مصنوعی ذہانت ہر چیز پر غالب نہ ہو جائے۔
افسوس کی بات ہے اور کسی حد تک خطرے کی بھی کہ دنیا میں اس کا غلط استعمال کرنے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ بہت سے طلبہ جو پڑھنے لکھنے کے قائل نہیں اور محنت سے دور بھاگتے ہیں یا جنکا مقصد صرف ڈگری کا حصول ہوتا ہے، ان کے لیے تو یہ ایک نعمت ثابت ہوئی۔ وہ نہ پڑھتے لکھتے ہیں اور نہ سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں بس مہارت سے کمپیوٹر کااستعمال کرتے ہیں اور اپنا کام چلاتے ہیں۔ میں تو اس بات کی قائل ہوں کہ قدرتی ذہانت سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، آخر AI بھی تو انسانی ذہن کی ایجاد ہے۔
آخر میں صرف مصنوعی ذہانت پر بھروسہ کر کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے والوں کو خبردار کرتی چلوں کہ اپنے ذہن کو استعمال نہ کرنا آپ کو کسی مضحکہ خیز صورتحال سے دو چار کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک پروگرام گوگل ٹرانسلیٹر ہے، جو ترجمہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صرف اسکے کیے گئے ترجمہ پر بھروسہ کر کے آپ میری بات سمجھ بھی سکتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ اردو زبان کے معروف شاعر جگر مرادآبادی کا نام گوگل مترجم میں ڈالیں تو اس کا ترجمہLiver Population بن جاتا ہے۔ خالد احمد صاحب کا مشہور و معروف شعر اور اس کا ترجمہ حاضر ہے۔
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
Neither you nor I cried over Turkish relations
What is that neither you nor I slept with China
اور مرحوم ناصر کاظمی صاحب سے معذرت کے ساتھ
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
In times of calamities
You are a Chinese watch
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے