1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی دنیا میں مذہب مسلسل پسپا ہوتا ہوا، جائزہ

امجد علی15 مئی 2015

جرمن شہر میونسٹر سے جاری کردہ ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق بڑھتی خوشحالی اور کسی اور کی بجائے اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کے بڑھتے رجحانات کے باعث مغربی دنیا میں مذہب کا اثر و رسوخ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FQNs
Philippinen Vatikan Papst Franziskus in Manila Kreuz
تصویر: Reuters/E. Acayan

میونسٹر کے مذہبی سماجیات کے ماہر ڈیٹلیف پولاک کے مرتب کردہ اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ کلیسا کو چھوڑنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایسے لوگ کسی طرح کی ٹھوس وجوہات کی بجائے اس لیے ایسا کر رہے ہیں کہ مذہب میں اُن کی دلچسپی ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

جمعہ پندرہ مئی کو جاری کیے گئے اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ کلیساؤں کی جانب سے شروع کیے گئے جوابی اقدامات بھی اس رجحان کے آگے بند باندھنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ جائزے کے مطابق کلیسا سے ہَٹ کر مغربی معاشروں میں موجود روحانی تحریکوں میں بھی دلچسپی بڑھنے کی شرح بہت کم ہو گئی ہے۔

اس جائزے میں بتایا گیا ہے کہ خوشحالی کی سطح میں اضافے اور بڑھتے ہوئے ثقافتی تنوع کے ساتھ ساتھ مسلسل بہتر ہوتے ہوئے سماجی اور تعلیمی نظام بھی لوگوں کی مذہبیت پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ جائزے کے مطابق ہالینڈ جیسے کثیرالمذہبی ملک کے مقابلے میں پولینڈ، اٹلی اور آئر لینڈ جیسے مذہبی طور پر قدرے بند ملکوں میں مذہب کو اب بھی خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔

Detlef Pollack
مذہبی سماجیات کے ماہر ڈیٹلیف پولاک جرمن شہر میونسٹر میں رہتے ہیںتصویر: Brigitte Heeke

اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ اگر لوگ ایک کمیونٹی کے اندر رہتے ہوئے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوں تو مذہب کی اہمیت پھر بھی بنی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ کہ اگر مذہبی رجحانات کو سیاسی، قومی یا اقتصادی مفادات کے ساتھ موبوط کیا جاتا رہے تو بھی مذہب کے حوالے سے لوگوں کے طرزِ عمل پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جیسے کہ مثلاً امریکی صدر باراک اوباما نے بائبل پر حلف اٹھایا تھا یا جیسے کانگریس کے اندر دعا کی گئی تھی۔ تاہم دوسری طرف اس جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مذہب اور سیاست ایک دوسرے کے حد سے زیادہ قریب آ جائیں تو لوگوں کی جانب سے مذہب کے خلاف مزاحمت بڑھ بھی جاتی ہے۔

اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ ایسے خِطّوں میں، جہاں اقلیتوں کو کوئی دوسرا عقیدہ رکھنے والی اکثریت کے مقابلے پر اپنا آپ منوانا پڑتا ہے، مذہب کے ساتھ وابستگی زیادہ گہری ہو جاتی ہے۔

اس جائزے کی تیاری کے سلسلے میں ڈیٹلیف پولاک اور اُن کے ساتھی گیرگلی روسٹا نے اٹلی، ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، روس، امریکا، جنوبی کوریا اور برازیل سے متعلق ایسے ڈیٹا کی مدد لی، جو 1945ء سے لے کر اب تک کے حالات کا احاطہ کرتا تھا۔ میونسٹر یونیورسٹی نے اس مطالعاتی جائزے کو مذہبی رجحانات کے حوالے سے اب تک کے جامع ترین جائزوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید