’منحرف سعودی شہزادوں کے گروپ کے سربراہ‘ پرنس طلال کا انتقال
24 دسمبر 2018سعودی دارالحکومت ریاض سے پیر چوبیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پرنس طلال بن عبدالعزیز، جو سعودی شاہی خاندان کے سینئر ترین ارکان میں سے ایک تھے، کی نماز جنازہ کل اتوار تئیس دسمبر کو ادا کر دی گئی۔
پرنس طلال بن عبدالعزیز سعودی عرب میں حکمران شاہی خاندان کے ان ارکان پر مشتمل گروپ کے سربراہ گنے جاتے تھے، جن کا کئی برسوں سے مطالبہ تھا کہ اس قدامت پسند عرب بادشاہت کو بھرپور اصلاحات کی ضرورت تھی اور خواتین کو ان کے حقوق دینا ایک لازمی سا فیصلہ تھا، جس سے انکار ممکن نہیں تھا۔
پرنس طلال نہ صرف موجودہ سعودی بادشاہ سلمان کے بڑے بھائی تھے بلکہ وہ سعودی شاہی خاندان کے کامیاب ترین کاروباری ارکان میں شمار ہونے والے پرنس الولید بن طلال کے والد بھی تھے۔ پرنس الولید بن طلال دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
شاہ سلمان کی طرح پرنس طلال بھی جدید سعودی عرب کے پہلے بادشاہ عبدالعزیز کے بیٹے تھے، جن کے انتقال کے بعد سے اب تک سعودی بادشاہت کی قیادت ان کے بیٹے ہی کرتے آئے ہیں کیونکہ اس دوران بادشاہت صرف ایک بھائی سے دوسرے بھائی کو ہی منتقل ہوتی آئی ہے۔
پرنس طلال کے ہفتہ بائیس دسمبر کو انتقال کی اطلاع ان کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن طلال نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں دی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی رائل کورٹ کی طرف سے بھی ایک بیان میں ان کی موت کی تصدیق کر دی گئی۔
شہزادہ طلال بن عبدالعزیز 1950ء کے عشرے میں سعودی وزیر مواصلات بنا دیے گئے تھے اور 1960ء کی دہائی کے اوائل میں وہ ملکی وزیر خزانہ کے منصب پر بھی فائز رہے تھے۔ وہ عشروں پہلے کے انتہائی قدامت پسند سعودی عرب میں اس حد تک جدیدیت کے حامی تھے کہ 1957ء میں انہوں نے ہی لڑکیوں کے ایک ایسے اسکول کی بنیاد رکھی تھی، جو سعودی دارالحکومت ریاض میں لڑکیوں کا پہلا اسکول تھا۔
انہوں نے یہ گرلز اسکول ایک ایسے دور میں قائم کیا تھا، جب سعودی دارالحکومت میں لڑکیوں کو کسی بھی سطح کے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ تعلیم تک کوئی رسائی حاصل نہیں تھی اور اسکولوں میں داخلہ صرف لڑکوں کو دیا جاتا تھا۔
نصف صدی سے بھی زائد عرصہ قبل جب پرنس طلال بن عبدالعزیز سعودی وزیر خزانہ بنے تھے، تو اسی دور میں انہوں نے حکمران شاہی خاندان کے شہزادوں کے ایک ایسے گروپ کی قیادت بھی سنبھال لی تھی، جو اس بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ خاندان سعود کو ملک میں جامع سیاسی اصلاحات متعارف کرانا چاہییں۔
سعودی شہزادوں کے اس گروپ کے سیاسی اور سماجی اصلاحات کے اہم ترین مطالبات میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ سعودی بادشاہ کے اختیارات میں کمی لائی جانا چاہیے اور سیاسی طور پر اس خلیجی ریاست کو ’قطعی بادشاہت‘ کے بجائے ایک ’آئینی بادشاہت‘ ہونا چاہیے، جس کا اپنا ایک آئین بھی ہو۔ اس تحریک اور اس کے مطالبات کو جدید سعودی عرب کی تاریخ میں ’آزاد شہزادوں کی تحریک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
م م / ع ا / اے پی