منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث شہری، فلپائن کی تشویش
1 اپریل 2011منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث فلپائن کے تین شہریوں کی سزائے موت پر رواں ہفتے بدھ کو چین میں عمل درآمد ہوا۔ اس کے بعد اپنے شہریوں کی اس ’کاروبار‘ میں شمولیت پر فلپائن کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ فلپائن کے شہریوں، بالخصوص خواتین کو سنڈیکیٹ (منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ) بہلاپھسلا کر اس’کاروبار‘ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ سنڈیکیٹ مبینہ طور پر مغربی افریقہ کے شہری چلا رہے ہیں۔
جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے نے منیلا حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بعض لوگ یہ خطرناک کام قبول کرنے پر اس لیے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں، جو ان گروہوں کے ارکان کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے یہ ’پیشہ‘ اختیار کر لیتے ہیں۔
انسداد منشیات کے ادارے ’فلپائن ڈرگ اِنفورسمنٹ ایجنسی (پی ڈی ای اے) کے ترجمان ڈیرک کیریون کا کہنا ہے، ’فلپائنی خواتین کو سنڈیکیٹس سے وابستہ لوگ شادی کا جھانسہ دے کر بھی پھنسا لیتے ہیں۔ جب تک ان خواتین کو حقیقت کا پتہ چلتا ہے، وہ جال میں پھنس چکی ہوتی ہیں۔‘
پی ڈی ای اے کے ریکارڈ کے مطابق منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے پر اس وقت دنیا بھر میں فلپائن کے سات سو شہری قید ہیں، جن میں سے تریسٹھ فیصد خواتین ہیں۔
ان میں سے دو سو سے زائد چین میں قید ہیں، جہاں پچاس گرام یا اس سے زائد منشیات کے ساتھ پکڑے جانے والے کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔
رواں ہفتے بدھ کو چین میں جن تین فلپائنی شہریوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، انہیں 2008ء میں چار سے سات کلوگرام ہیروئن اور کوکین کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ منیلا حکام نے ان کی معافی کے لیے آخری لمحات پر اپیل بھی کی تھی، تاہم وہ چین میں سزائے موت پانے والے پہلے فلپائنی شہری بن گئے۔
فلپائن کی وزارت خارجہ کے مطابق چین میں اس کے ایک اور شہری کو بھی سزائے موت کے فیصلے کا سامنا ہے، تاہم یہ فیصلہ نظرثانی کے لیے سپریم پیپلز کورٹ کے سامنے ہے۔
فلپائن کے صدر بینکنو اکینو کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے مزید شہریوں کو منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس جون سے تئیس مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین میں سزائے موت کا سامنا کرنے والے افراد بھی ایسے ہی گروہوں کا نشانہ بنے۔ تاہم بینکنو اکینو یہ بھی کہا کہ سزائے موت پانے والے ان کے شہریوں کے لیے معاشرہ بھی ذمہ دار ہے، جو انہیں اپنے ہاں ملازمت کے بہتر مواقع فراہم نہیں کر سکا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق