1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’موبائل سے بنی ويڈيو، ٹی وی چينل کی رپورٹ سے زيادہ موثر‘

4 فروری 2019

ساہيوال ميں حال ہی ميں پيش آنے والے واقعے کے بعد پاکستان ميں پوليس کے اختيارات اور ان کے مبينہ ناجائز استعمال پر ايک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ اس سلسلے ميں سوشل ميڈيا کا کردار کافی نماياں ہے۔

https://p.dw.com/p/3CfCe
Pakistan, Youtube auf Smartphone
تصویر: AFP/Getty Images/B. Khan

حال ہی ميں پاکستان ميں يہ واقعہ پيش آيا کہ پانچ پوليس اہلکاروں نے سڑک پر کھڑی ايک کار پر بہت قريب سے اندھا دھند فائرنگ کی اور پھر لاشوں کے درميان تين کمسن اور روتے ہوئے بچوں کو باہر نکالا گيا۔ اس واقعے کی تفتيش جاری ہے اور حقائق جاننے کے ليے متعلقہ ادارے سرگرم ہيں۔ تاہم ساہيوال ميں پيش آنے والے اس واقعے کی سوشل ميڈيا پر جاری کردہ متعدد ويڈيوز نے ايک بحران کھڑا کر ديا۔ يہاں تک کہ وزير اعظم عمران خان کو مداخلت کرنا پڑی اور پوليس کو ايسی کارروائيوں ميں حاصل چھوٹ يا استثنٰی کی سی صورتحال پر ملک ميں ايک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اہم بات يہ ہے کہ پاکستان ميں اس پرانے اور کافی اہم معاملے پر بحث کا مرکزی ذريعہ سماجی رابطوں کی ويب سائٹس بنيں۔

پاکستان ميں پوليس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے الزامات کوئی نئی بات نہيں۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کی اسلام آباد سے پير چار فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق حاليہ برسوں ميں سينکڑوں افراد کو ’فائرنگ کے تبادلے‘ ميں ہلاک کيا جا چکا ہے۔ مشتبہ افراد کو گرفتاری ميں ہچکچاہٹ دکھانے پر ہلاک کر ديا جاتا اور پھر ان پر ’دہشت گرد‘ ہونے کی چھاپ لگا دی جاتی ہے۔

ساہيوال ميں پچھلے ماہ پيش آنے والے واقعے ميں چار افراد لقمہ اجل بنے، جن ميں ايک جوڑا اور ان کی ايک بيٹی بھی شامل تھے۔ تين بچے اس واقعے ميں بچ گئے، جن ميں نو سالہ عمير خليل بھی شامل ہے۔ عمير نے بعدازاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتايا کہ اس کے والد پوليس والوں کو رقم کی پيش کش کر کے چھوڑ دينے کی درخواست کر رہے تھے کہ انہوں نے فائرنگ کر دی۔ ابتداء ميں پوليس نے يہ کہہ کر اپنا دفاع کيا کہ داعش سے وابستہ ’دہشت گرد‘ گاڑی ميں تھا اور مقتول خاندان کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کيا جا رہا تھا۔ ليکن يہ واقعہ يا ’اِن کاؤنٹر‘ اس ليے مختلف تھا کيونکہ اس کی کئی لوگوں نے اپنے اسمارٹ فونز پر ويڈيو بنائی اور پھر يہ ويڈيوز سوشل ميڈيا پر گرما گرم بحث و مباحثے کا سبب بنی رہيں۔

پاکستان ميں ڈيجيٹل رائٹس سے متعلق ايک رضاکار ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ لوگ اس بات سے واقف ہيں کہ ان کے اسمارٹ فونز سے بنائی گئی کوئی ويڈيو، کسی نيوز چينل کے کيمروں سے کہيں زيادہ بااثر ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر آس پاس کھڑے لوگوں نے ساہيوال ميں پيش آنے والے واقعے کی ويڈيوز نا بنائی ہوتيں، تو کسی کو پتہ نہ چلتا کہ مقتولين کو ماروائے عدالت قتل کيا گيا۔‘‘

پاکستان ميں رونما ہونے والا يہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح اسمارٹ فونز اور سوشل ميڈيا، طاقت کے ناجائر استعمال کے ايک کلچر کے خلاف قوت ثابت ہو رہا ہے۔ پچھلے سال انتخابات کے موقع پر بھی کئی علاقوں ميں ووٹرز نے اپنی اپنی شکايات اسی ذریعے سے درج کرائيں۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ سوشل ميڈيا ايسی کارروائیوں کے خلاف بطور ايک قوت صرف پاکستان ہی ميں نہيں بلکہ ديگر ملکوں ميں بھی ثابت ہو رہا ہے۔ امريکا ميں پوليس کے ہاتھوں چند سياہ فام افراد کے قتل کے بعد شروع ہونے والی تحريک ’بليک لائيوز ميٹر‘ ميں بھی سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کا کردار اہم تھا۔

سياسی تجزيہ کاروں کے مطابق پاکستان ميں ماورائے عدالت قتل کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس کے خاتمے کے ليے پوليس کو دستياب استثنیٰ ختم کرنا ہو گا۔

ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان کے سربراہ مہدی حسن نے بتايا کہ پاکستان ميں يہ کلچر ہے کہ پوليس لوگوں کو قتل کر کے انہيں فائرنگ کے تبادلے ميں ہلاک ہونے والے ’دہشت گرد‘ کہہ ديتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق پچھلے تين برسوں ميں ملک بھر ميں ايسے ’فائرنگ کے تبادلوں‘ ميں کُل 4,803 افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں