مودی حکومت کے لیے یہ آخری موقع ہے، کسانوں کی دھمکی
3 دسمبر 2020ہزاروں کسانوں نے پچھلے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے قومی دارالحکومت کا ایک طرح سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس سنگین صورت حال کا کوئی حل تلاش کرنے کے لیے مودی حکومت کے تین مرکزی وزراء کسانوں کی چالیس تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں۔
حکومت کے ساتھ بات چیت سے قبل کسان رہنماؤں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔ وہ پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کر کے کسانوں کے حوالے سے تینوں سیاہ قوانین واپس لے ورنہ پوری دہلی کو بلاک کردیا جائے گا۔ اس وقت ہزاروں کسان قومی دارالحکومت میں داخل ہونے والی پانچ سرحدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سڑکوں پر میلوں تک اپنے ٹرک، جیپ اور دوسری گاڑیاں کھڑی کر کے انہیں عارضی خیموں میں تبدیل کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
پورا ملک متاثر ہوگا
پنجاب کے کانگریسی وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے آج مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کر کے اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کسانوں سے بھی بات چیت میں تعطل ختم کرنے کی اپیل کی۔
نئے زرعی قوانین کی مخالفت اور کسانوں کی حمایت کرنے والی امریندر سنگھ حکومت نے کہا کہ ناراض کسانوں کے احتجاج سے پیدا شدہ صورت حال سے صرف پنجاب ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ اس کا پورے ملک کی سکیورٹی پر بھی زبردست اثر پڑے گا۔
وزیر داخلہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ اس مسئلے میں ان پاس کچھ نہیں ہے، جو کچھ کرنا ہے وہ مرکز کی مودی حکومت کو کرنا ہے۔
اعزاز واپسی کا سلسلہ شروع
کسانوں کے تئیں حکومت کے رویے سے ناراض کھلاڑیوں اور دیگر افراد نے حکومت کی طرف سے اعزازات کو بطور احتجاج واپس لوٹانے کا اعلان کیا ہے۔
اس سلسلے کا آغاز کرتے ہوئے پنجاب کے سابق وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل نے آج بھارت کا دوسرا اعلی ترین شہری اعزاز'پدم وبھوشن‘ لوٹا دیا۔ 92 سالہ رہنما کو ان کی عوامی خدمات کے اعتراف میں 2015ء میں مودی حکومت نے اس اعزاز سے نوازا تھا۔ زرعی قوانین کے خلاف بطور احتجاج حکمراں این ڈی اے اتحاد سے الگ ہوجانے والی شرومنی اکالی دل کے رہنما بادل نے کہا کہ وہ 'کسانوں کے ساتھ حکومت کی غداری‘ کے خلاف بطور احتجاج پدم وبھوشن اعزاز واپس کررہے ہیں۔
پنجاب کے متعدد معروف کھلاڑیوں نے بھی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پانچ دسمبر کو دہلی مارچ کریں گے اور اپنے ایوارڈ حکومت کو واپس کردیں گے۔
حکومت پر کسانوں کو 'لڑانے‘ کا الزام
کسان رہنماؤں نے الزام لگایا کہ حکومت یہ دکھانے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ احتجاجی تحریک صرف پنجاب کے کسانوں کی ہے۔
کسان رہنما پروفیسردرشن پال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے ملک کے کسانوں کی تحریک ہے اور اس میں ملک بھر کے کسان اور ان کے رہنما متفقہ طورپر شامل ہیں لیکن حکومت یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ محض پنجاب کے کسانوں کو نئے زرعی قوانین پراعتراض ہے۔
پروفیسر پال نے مزید کہا،''حکومت ہمیں آپس میں لڑانے کی کوشش کررہی ہے لیکن ہم اس کی اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تینوں قوانین کو ختم کیا جائے، حکومت اس کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرے اور جس طرح قانون کو منظور کیا تھا اسی طرح اسے ختم بھی کرے۔‘‘
بعض یقین دہانی کا امکان
کسانوں کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان کی پیداوار کی کم از کم قیمت خرید کا جو سابقہ نظام تھا اسے برقرار رکھا جائے۔ کسان حکومت کی طرف سے ہر طرح کی یقین دہانی تحریری شکل میں دینے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
ایک سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ گوکہ نئے زرعی قوانین سے کم از کم قیمت خرید پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے باضابطہ اس طرح کی کوئی کچھ یقین دہانی کرانا ممکن ہے۔
کسان فصلوں کے باقیات کو جلانے سے پیدا ہونے والی آلودگی سے متعلق آرڈیننس کو واپس لینے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پنجاب کے کسان فصلوں کے باقیات جلادیتے ہیں، جس سے دہلی میں آلودگی کی سطح کافی بڑھ جاتی ہے۔ حکومت نے پچھلے دنوں اس حوالے سے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت فصلوں کی باقیات جلانے والوں کو ایک سال جیل اور ایک کروڑ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت فصلوں کے باقیات کو جلانے کے متبادل کے طورپر ماحول دوست ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے کسانوں کو زیادہ سبسڈی دینے پر غور کرسکتی ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم نریندرمودی نے پچھلے دنوں ان متنازعہ زرعی قوانین کو کسی بھی صورت میں واپس نہیں لینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قوانین کسانوں کے فائدے کے لیے ہیں اور کچھ لوگ کسانوں کو گمراہ کررہے ہیں۔