مودی کے نام کسانوں کا خون سے تحریر کردہ خط
24 دسمبر 2020بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک سے پیدا شدہ بحران کو ختم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کئی ادوار کی بات چیت ہو چکی ہے لیکن فریقین کے اپنے اپنے موقف پر مُصر رہنے کی وجہ سے تعطل ہنوز برقرار ہے۔ دھرنے پر بیٹھے اب تک41 کسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس دوران وزیراعظم نریندر مودی جمعرات 25 دسمبر کو کسانوں سے خطاب کرنے والے ہیں۔
دہلی سے ملحق نوئیڈا سرحد پر دھرنے پر بیٹھے بھارتیہ کسان یونین (لوک شکتی) کے سربراہ شیو راج سنگھ نے اپنے خون سے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی اپیل کی۔ شیوراج سنگھ نے بتایا کہ انہوں نے یہ خط ضلع مجسٹریٹ کے سپرد کردیا ہے، جنہوں نے اسے وزیراعظم تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔
نوئیڈا کے ضلع مجسٹریٹ اوما شنکر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کسانوں کی یونین کی طرف سے خون سے لکھا ہوا ایک خط موصول ہوا ہے اور اسے حسب ضابطہ وزیر اعظم کے دفتر کو بھیج دیا جائے گا۔
حکومت پر کیسے یقین کریں؟
کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان کی شکایتوں کو دور کرنے کے بجائے ان کی تحریک کو کچلنے کے لیے تمام ممکنہ حربے استعمال کررہی ہے۔ اس میں کسانوں کے اندر پھوٹ ڈالنا اور انہیں ڈرانا دھمکانا بھی شامل ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپورو انند نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کے ساتھ حکومت کے رویے کی وجہ سے اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے، ''حکومت ایک طرف تو یہ کہہ رہی ہے کہ وہ بات چیت کے لیے کھلے دل سے تیار ہے لیکن دوسری طرف تمام سرکاری ذرائع کا استعمال کر کے پورے زور شور سے یہ افواہیں بھی پھیلا رہی ہے کہ یہ تحریک گمراہ لوگوں کے ذریعہ چلائی جا رہی ہے اور یہ کسانوں کو گمراہ کرنے کی ایک سازش ہے۔ اس تحریک کو خالصتانی کہا گیا، کہا گیا کہ اس میں ماؤ نواز ہیں، اس میں جہادی ہیں اور اسے غیر ملکی عناصر کی سازش بھی بتایا گیا اور ابھی بھی پورے بھارت میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور حکومت پوری طاقت کے ساتھ اس تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔"
اپوروانند کا کہنا تھا کہ اس تحریک کو اس لیے بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس کے خلاف پورے ملک میں ایک پرتشدد ذہنیت تیار ہو جائے، جیسا کہ گزشتہ برس شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تیار کی گئی تھی، ”اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ سی اے اے کی مخالفت کرنے والےغدار ہیں، جہادی ہیں، ماؤ نواز ہیں۔ اس کو بدنام کرنے کے لیے پورے سماج بالخصوص ہندوؤں کے اندر نفرت پیدا کی گئی اوراسی کے نتیجے میں تحریک چلانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔"
پروفیسر اپورو انند کا کہنا تھا،”جب حکومت کسی تحریک کو بدنام کرنے میں پوری طرح سے مصروف ہو جائے تو اس کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کو سنجیددہ تصور کرنا بہت مشکل ہے۔"
’بھارت میں جمہوریت ہے کہاں!‘
زرعی قوانین کو واپس لینے کے لیے ایک طرف جہاں ایک لاکھ سے زائد کسانوں نے دہلی کی تمام سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے وہیں متعدد سیاسی جماعتیں بھی حکومت سے متنازعہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔
اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے آج اس حوالے سے بھارتی صدر رام ناتھ کووند سے ملاقات کی۔ پولیس نے تاہم ان کی بہن اور پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو اس وقت گرفتار کرلیا جب وہ صدر سے ملاقات کے لیے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
راہول گاندھی نے پولیس کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،''گرفتار کرنا اور مارنا پیٹنا تو اس حکومت کا طریقہ ہے۔ آج بھارت میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ آپ کون سے ملک کی بات کررہے ہیں۔ انڈیا کی؟ انڈیا میں کوئی ڈیموکریسی نہیں۔ ڈیموکریسی آپ کے تصور میں ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں بالکل نہیں ہے۔"
راہول گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ جو کوئی بھی حکومت کے موقف کے خلاف بات کرے گا اس پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کردیا جائے گا۔ خواہ وہ کسان ہوں، مزدورہوں حتی کہ موہن بھاگوت (آر ایس ایس کے سربراہ) ہی کیوں نہ ہوں۔"
راہول گاندھی نے حکومت سے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے زرعی قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 'کسان اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ یہ زرعی قوانین ختم نہیں کر دیے جاتے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مودی حکومت نے نومبر میں منعقد ہونے والے پارلیمان کے سرمائی اجلاس کو کورونا وائرس کے نام پر ختم کردیا تھا اور اب31 جنوری سے پارلیمان کا بجٹ اجلاس شروع ہو گا۔
کسانوں پر اقدام قتل کا مقدمہ
ہریانہ پولیس نے زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے ان 13 کسانوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت اقدام قتل اور فساد برپا کرنے کے کیس درج کیے ہیں، جنہوں نے بدھ کے روز ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر کے قافلے کو اس وقت روک دیا تھا جب وہ ایک جلسے سے خطاب کرنے جارہے تھے۔ کسانوں نے انہیں سیاہ پرچم دکھائے اور مودی حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
اپوزیشن جماعتوں نے کسانوں کے خلاف کیس درج کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام حکومت کی مایوسی کا مظہر ہے۔
اس سے قبل اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے مظاہرے میں حصہ لینے والے کسانوں پر پچاس لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کردیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کی بھی شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔