مشرق وسطیٰ ميں قديم اسلامی تاريخ و ثقافتی ورثے خطرے ميں
2 اکتوبر 2022بابل ايک وقت دنيا کا سب سے بڑا شہر ہوا کرتا تھا، جو اپنے اندر دنيا کے سات عجائب ميں سے ايک معلق باغات، ايک معروف ٹاور اور ايک پوری کی پوری ثقافت سموئے ہوئے تھا۔ قريب 4,300 برس قبل دریائے فرات کے کنارے آباد ہونے والا يہ تاريخی شہر آج جنوبی عراق کا حصہ ہے۔ ليکن اب وہاں صرف کھنڈرات دکھائی ديتے ہيں۔ بيشتر عمارات اس قدر خستہ حال ہو چکی ہيں کہ ان کی ديواروں پر ٹوٹ پھوٹ عياں ہے۔ دہائيوں تک دنيا بھر کے سياحوں کی توجہ کا مرکز رہنے والا يہ شہر آج اس قدر خستہ ہو چکا ہے وہاں اب سیاحوں کا داخلہ بھی مسئلہ ہے۔
'يونيورسٹی کالج آف لندن‘ ميں مشرق وسطی کی تاريخ کی پروفيسر ايلينور روبسن کے مطابق سالہا سال سے انتہائی خشک گرميوں اور زمين کے اندر سے رسنے والے پانی کی وجہ سے بابل کی عمارات آہستہ آہستہ منہدم ہوتی جا رہی ہيں۔
يونيسکو کے عالمی ثقافتی ورثے ميں شامل يہ قديم شہر مشرق وسطی ميں ايسا واحد مقام نہيں، جو موسمياتی تبديليوں اور زمين کے درجہ حرارت ميں اضافے کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہے۔
بھارت: ہندو قوم پرستی کی بھینٹ چڑھتا قدیم تہذیبی و ثقافتی ورثہ
بلوچستان کے شہر خموشاں: چوکنڈی قبرستان اور مقبرے
برفانی دور کی جرمن غاریں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل
بارہ ہزار سال پرانا ترک ثقافتی ورثہ ڈیم کے پانی کی نذر
مصر کی متعدد تاریخی عمارات میں اونچے درجہ حرارت اور نمی کی وجہ سے پتھروں کا رنگ تبديل ہو رہا ہے۔
زيادہ تواتر کے ساتھ لگنے والی جنگلاتی آگ، دھول، مٹی اور ریت کے طوفان، فضائی آلودگی، نمکیات میں اضافے اور بلند ہوتی ہوئی سطح سمندر کی وجہ سے اس شمالی افريقی ملک کے بيشتر تاریخی مقامات کو خطرہ لاحق ہے۔
اردن میں تقریباً 2,300 سال پرانے شہر الپترا کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ وہاں ديواروں کے کچھ حصے گرنے کے امکانات ہیں۔
مشرقی یمن میں شدید بارشيں اور سيلابی ريلے وادی حضرموت میں مٹی کی اينٹوں سے کھڑی کی گئی کئی تاریخی عمارتوں کو آہستہ آہستہ بہا لے جا رہے ہيں۔
علاوہ ازيں لیبیا میں قدیم نخلستانی قصبہ غدامس بھی خطرے سے دوچار ہے کیونکہ وہاں پانی کا ذریعہ سوکھ چکا ہے۔
مقامی سطح پر نباتات مر چکی ہیں اور رہائشی وہاں سے چلے گئے ہیں۔ سمندر کی سطح میں اضافے اور سیلابوں کی وجہ سے ساحلی خطوں پر واقع ثقافتی مقامات بھی خطرے میں ہیں۔
جرمنی کے 'ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار کیمسٹری‘ اور قبرص انسٹیٹیوٹ کے محققین کی طرف سے شائع ہونے والی ايک رپورٹ ميں تنبيہ کی گئی ہے کہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی بحیرہ روم کے خطوں ميں عالمی اوسط سے تقریباً دو گنا زیادہ تیزی سے گرمی بڑھ رہی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے اس حصے میں قلعے، اہرام اور دیگر قدیم مقامات ہمارے موسم و ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ہیں۔
یادگاری مقامات اور آثار قديمہ کی بین الاقوامی کونسل کی جانب سے کہا گيا ہے، ''موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں انسان اور ثقافتی ورثے کے لیے سب سے اہم اور تیزی سے بڑھتے ہوئے خطرات میں سے ایک بن گئی ہيں۔‘‘
قبرص انسٹیٹیوٹ میں آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے کے ماہر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر نکولس بکيرتزس نے کہا، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ثقافتی ورثے کو یورپ جیسی جگہوں کے مقابلے ميں زیادہ خطرہ لاحق ہے۔‘‘
ان کے بقول اس کی ايک بڑی وجہ خطے ميں بڑھتی ہوئی گرمی ہے جبکہ ايک اور وجہ يہ بھی ہے کہ خطے کے بہت سے ملکوں کو سياسی، اقتصادی و عسکری مسائل کا سامنا ہے اور ان کے ليے آثار قديمہ کا تحفظ اولين ترجيح نہيں۔
مصر، اردن اور خلیج کے چند ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ اپنے ثقافتی ورثے کی بہتر ديکھ بھال کر رہے ہیں لیکن کئی ممالک اس ضمن ميں کچھ نہيں بھی کر رہے۔
(این تھومس) ع س / ع ب