1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: مون سون کے بعد بیماریوں کا پھیلاؤ

12 اکتوبر 2024

لاہور کراچی اور پشاور سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون کے بعد موسمی بیماریوں کے شکار افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ محکمہ صحت نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر کی ایڈوائس جاری کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4lQ0H
Pakistan | Ausbruch von Dengue-Fieber nach verheerenden Überschwemmungen
مون سون کے بعد ڈینگی بخار ہر سمت پھیل رہا ہے۔تصویر: Saba Rehman/DW

لاہور کے سینئر معالج ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مون سون کے بعد آج کل کے موسم میں ڈینگی، ملیریا، ٹائفائید، ہیپا ٹائیٹس ، ہیضہ اور چکن گونیا جیسی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کا موسم بیماری کا باعث بننے والے جراثیموں کی افزائش کے لیے بہت موزوں ہوتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ اس سال بھی ڈینگی کی وبا ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے اور ملک کے بیشتر حصوں میں ڈینگی کے مریض بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے مریضوں کی تعداد ریکارڈ کرنے کا کوئی مستند انتظام موجود نہیں ہے لیکن پاکستانی کے سرکاری حکام  اس برس ڈینگی کے مریضوں کی تعداد چند ہزار بتا رہے ہیں لیکن طبی اور صحافتی حلقے حکومتی اعدادوشمارکو درست قرار نہیں دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان اعداوشمار میں نجی ہسپتالوں اور دیہات میں رہنے والے مریضوں کی تعداد شامل نہیں ہوتی۔ 

طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی بخار کی علامات میں بخار، سردرد، جوڑوں اور پٹھوں کا درد اور عموماً جلد پر سرخی مائل ریشز کا نمودار ہونا بھی شامل ہے۔ ان کے بقول عموماً اس بخار میں مبتلا مریض اگر مناسب احتیاطی تدابیر پر عمل کرے تو خود بخود صحت یابی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کی رائے میں اس بیماری میں پانی یا مائع اشیاء کا زیادہ استعمال اہم قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان: سیلاب کے بعد صحت کے بحران کا خطرہ

عموماً اس میں  بخار کم کرنے کے لیے پیراسیٹامول کی دوا ہی کافی سمجھی جاتی ہے لیکن بعض اوقات کم قوت مدافعت رکھنے والے افراد میں یہ مرض شدت بھی اختیار کر لیتا ہے اور  یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ 

پاکستان کے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے۔
مون سون کے بعد بیماریوں کا پھیلاؤ۔تصویر: Xinhua/IMAGO

یاد رہے صرف ایک دن پہلے عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر میں ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا  وائرس کے پھیلاؤ سے خبردار کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ اس سال دنیا میں ڈینگی، چکن گنیا اورزیکا وائرس جیسے کیسز  گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا ہوگئے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہے کہ اس سال دنیا بھر میں ڈینگی اور مچھروں سے پھیلنے والے کیسز کی تعداد ایک کروڑ 23 لاکھ تک پہنچ گئی  ہے جب کہ پچھلے سال ڈینگی اور مچھروں سے پھیلنے والی ان بیماریوں کے مریضوں  کی تعداد 65 لاکھ تھی۔

 پاکستان بھی اس وقت  ڈینگی اور چکن گونیا کی وبا کی زد میں ہے۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق ملک کے کئی علاقوں میں ڈینگی اور چکن گونیا کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

پاکستان نے سن 2022 کے بدترین سیلاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ماہرین

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سابق استاد اور ماہر امراض چشم پروفیسر  ڈاکٹر انتظار حسین بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا آج کل کے گرم مرطوب موسم میں آشوب چشم کے مریضوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اس بیماری میں مریض کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اسے  آنکھوں میں درد، چبھن اور سوجن محسوس ہوتی ہے۔ ایسے مریض جتنے زیادہ لوگوں سے ملتے ہیں انتے ہی لوگ اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول آشوب چشم کے مریضوں کو ہجوم میں جانے اور اپنا تولیہ شئیر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور اپنے ٹشو پیپرز کو درست طریقے سے ڈسپوز آف کرنا چاہیے۔

پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی ڈینگی بخار کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔
مون سون بارشوں سے پھیلنے والے امراض میں ڈینگی بخار بھی شامل۔تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

 سینئر فیزیشن ڈاکٹر محمد خورشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ ان موسمی بیماریوں سے بچنے کے لیے لوگوں کو صاف اور تازہ  کھانا کھانے، باقاعدگی سے ہاتھ دھونے، ارد گرد کے ماحول کو صاف رکھنے ، جسم کو پوری طرح ڈھکنے والا لباس پہننے اور غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ جسم کی قوت مدافعت بڑھانے والی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ ہونا چاہیے۔ ان کے بقول پینے کے صاف پانی کے استعمال سے بھی کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ ''فریج سے باہر پڑے باسی کھانوں کے استعمال سے احتیاط کریں۔ ٹایفائیڈ اور فلو سمیت کئی بیماریوں کی ویکسین بھی دستیاب ہے اس موسم میں ان ویکسینز کا لگوایا جانا بھی بہتر ہوتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش بتاتے ہیں کہ کئی موسمی بیماریوں کی علامات بہت ملتی جلتی ہیں اس لیے ان میں مرض کی تشخیص بعض اوقات مشکل ہو جاتی ہے خاص طور پر ان مریضوں کے لیے جو زیادہ ٹیسٹ کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق بغیر ڈاکٹر کے مشورے سے اپنے اندازوں سے دوا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ 

پاکستان میں لاکھوں سیلاب متاثرین بنیادی صحت سہولیات کے منتظر

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ عام طور پر موسمی بیماریوں کی شدت کا عمل تیس نومبر تک رہتا ہے لیکن ڈینگی کے حملے دسمبر تک جا سکتے ہیں۔

پاکستان کے اسکولوں میں گزشتہ برس 56 ہزار بچوں کو آنکھوں کا انفکشن ہوا۔
راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر ایک بچے کی آنکھوں کا ٹیسٹ کر رہا ہے۔تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

میو ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر اعجاز نذیر ناک کان اور گلے کے امراض کے ڈاکٹر ہیں۔ ان کے بقول اس موسم میں الرجی، نزلہ زکام وغیرہ کی شکایتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ لوگ ماسک پہن کر ، بھیڑ والے علاقوں سے گریز کرکے اور پانی کا زیادہ استعمال کرکے کافی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

اخوت ہیلتھ سروسز کے سربراہ ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا اس وقت موسمی بیماریوں میں سب سے زیادہ کیسز ڈینگی اور ملیریا کے آ رہے ہیں۔ یہ مریض تیز بخار، جسم میں درد، اور سردی کی شکایات کے ساتھ

نمودار ہوتا ہے۔ سندھ میں چکن گونیا کے مریضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

الخدمت ہیلتھ سروسز کے سربراہ ڈاکٹر زاہد لطیف کہتے ہیں کہ مون سون کے بعد بڑی تعداد میں پھیلنے والی موسمی بیماریوں کے پیش نظر ہم نے اپنے موبائل ہیلتھ یونٹس کو ریموٹ ایریازمیں لوگوں کے علاج کے لیے بھجوا دیا ہے اور زیادہ سیریس مریضوں کو الخدمت کے چھپن ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔