’مَیں رو دیا‘، OIC سیکرٹری جنرل میانمار میں
17 نومبر 2013اسلامی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کے سیکرٹری جنرل احسان اوگلو نے اپنے وفد کے ہمراہ میانمار کی مسلمان روہنگیا کمیونٹی کے اُن ارکان سے بھی ملاقات کی، جنہیں بودھوں کے مشتعل جتھوں اور آتش زنی کرنے والوں نے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان جذباتی ملاقاتوں میں اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے:’’میری اس طرح کی کیفیت پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی۔‘‘ ویسے تو احسان اوگلو نے اپنے اس دورے کے دوران میانمار کے صدر، مختلف وُزراء، بین المذاہب گروپوں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن اُن کے دل پر سب سے گہرا اثر پانچ پانچ ہزار کے وہ بڑے بڑے مجمعے دیکھ کر ہوا، جن سے وہ ریاست راکھین کے دارالحکومت سیتوے کے پسماندہ اور کوڑے کرکٹ سے اٹے ہوئےکیمپوں کے باہر ملے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں رو رہا تھا۔‘‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں جمع ان مسلمانوں کے اندر جذبات کا ایک طوفان تھا لیکن زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے وہ اپنے حالات بتانے سے قاصر تھے۔ احسان اوگلو کے مطابق، ’وہ مایوس تھے، خوفزدہ تھے۔ وہ ہمیں وہاں دیکھ کر بہت خوش بھی تھے لیکن یہ ایسی خوشی تھی، جس کا اظہار وہ رو رو کر ہی کر رہے تھے‘۔
او آئی سی کے بنیادی طور پر ترکی سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل کے مطابق وہ اُن کو صرف ’السلام علیکم‘ یا ’خدا تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے‘ جیسے جملے ہی کہہ سکتے تھے لیکن آگے سے جس انداز میں وہاں جمع ہزاروں لوگ اِن جملوں کا جواب دیتے تھے، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا:’’میں اپنے احساسات بیان نہیں کر سکتا۔ یہ انتہائی پُر اثر منظر تھا۔‘‘
چھ کروڑ کی آبادی والا بودھ اکثریت کا حامل میانمار نصف صدی کی فوجی حکومت کے بعد 2011ء سے رفتہ رفتہ جمہوری نظام کی طرف آ رہا ہے تاہم اس عبوری دور پر اُس مذہبی تشدد کی گہری چھاپ ہے، جس کے نتیجے میں 240 سے زیادہ انسان ہلاک اور دو لاکھ چالیس ہزار بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ روہنگیا مسلمان بنے ہیں، جن کے آباؤ اجداد کئی نسلوں پہلے اس سرزمین پر پہنچے تھے لیکن ان مسلمانوں کو میانمار کی حکومت آج بھی شہریت دینے سے انکار کر رہی ہے۔
بے گھر افراد کے لیے قائم کیمپوں میں بہت سے بچے ایک سال سے زائد عرصے سے اسکول نہیں گئے۔ علاج معالجے یا کسی اور مقصد سے کیمپوں سے نکلنے کے خواہاں روہنگیا مسلمانوں کو بھاری رشوت دینا پڑتی ہے۔ امدادی کارکنوں کو بودھوں کی جانب سے مسلسل خطرات کا سامنا رہتا ہے، جو ان کارکنوں پر روہنگیا مسلمانوں کی بے جا طرف داری کا الزام لگاتے ہیں۔
او آئی سی کو اپنے اس دورے کے دوران متعدد مقامات پر بودھ مظاہرین کے احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جمعہ پندرہ نومبر کو سیتوے ایئر پورٹ پر چار ہزار کا ایک مجمع اس وفد کے خلاف مظاہرے کے لیے جمع تھا۔ ان مظاہرین کے ہاتھوں میں موجود بینرز پر اس طرح کے نعرے لکھے ہوتے تھے کہ ’او آئی سی گَیٹ آؤٹ‘ یا پھر ’ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرو‘۔
او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بہرحال اپنے دورے کو کامیاب قرار دیا کیونکہ یہ ایک ایسی حکومت کی دعوت پر عمل میں آیا، جو مسلمان اقلیت پر حملوں پر زیادہ تر خاموش تماشائی بنی رہی تھی۔
احسان اوگلو نے زیادہ تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ حکومت نے اُنہیں آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی شہریت کے معاملات کو سلجھانے کی یقین دہانی کروائی ہے:’’اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘ صدر تھین سین نے، جنہوں نے اس وفد کو میانمار آنے کی دعوت دی تھی، ہفتہ سولہ نومبر کو اس وفد کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
میانمار میں 135 تسلیم شُدہ نسلی گروپ موجود ہیں تاہم ان گروپوں میں روہنگیا شامل نہیں ہیں۔ 1982ء کے ایک قانون میں جن شہریوں کو میانمار کی شہریت حاصل کرنے کا اہل قرار دیا گیا ہے، اُن میں روہنگیا شامل نہیں ہیں۔ میانمار کی حکومت روہنگیا کو نسلاً بنگالی گردانتی ہے، جن کے بزرگوں کو 1824ء تا 1948ء برطانوی نو آبادیاتی دور میں مزدوروں کے طور پر میانمار لے جایا گیا تھا۔
روہنگیا عشروں سے امتیازی سلوک کو برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں، اُن کی نقل و حرکت پر بھی قدغنیں ہیں اور انہیں تعلیم اور ملازمتوں تک بھی رسائی نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر آنگ سان سُوچی نے، جو اب تک اس اقلیت کے دفاع میں کم ہی کبھی کچھ بولی ہیں، او آئی سی کے وفد کے ساتھ ملنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔