مہاجر دوست سیاست میرکل کی، لیکن فیصلہ صوبائی ووٹر کریں گے
13 مارچ 2016جرمنی کے تین صوبوں باڈن ورٹمبرگ، رائن لینڈ پلاٹينیٹ اور سیکسنی انہالٹ میں ہونے والے یہ انتخاب ماضی میں کبھی بھی اتنے اہم نہیں سمجھے جاتے تھے، جتنے وہ اس وقت ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ زیادہ تر مہاجرین کا بحران ہے۔
اے ایف ڈی سماجی تقسیم اور تعصب کو فروغ دے رہی ہے، میرکل
رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے
ان انتخابات کے نتائج اگر میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت (سی ڈی یو) کے حق میں نہ رہے تو ان کے اثرات 2017ء میں ہونے والے اگلے قومی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل تمام تر دباؤ کے باوجود تارکین وطن کے لیے ملکی سرحدیں کھلی رکھنے کے اپنے فیصلے پر اٹل رہیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد پناہ گزین جرمنی پہنچے تھے۔
مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد میں جرمنی آمد کے بعد میرکل اور سی ڈی یو کی مقبولیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی۔ دائیں بازو کے رائے دہندگان عام طور پر سی ڈی یو کو ووٹ دیتے ہیں لیکن اس مرتبہ دائیں بازو کی عوامیت پسند اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی بھی میدان میں اتر چکی ہے۔
کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں وہاں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی لیکن اس مرتبہ انتخابات سے پہلے کے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اب میرکل کی جماعت انتیس فیصد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے گی جب کہ گرین پارٹی کو ممکنہ طور پر بتیس فیصد تک رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہو سکے گی۔
رائن لینڈ پلاٹينیٹ میں بھی سی ڈی یو کے دوسرے نمبر پر رہنے کا امکان ہے۔ جائزوں کے مطابق اس صوبے میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی شاید چھتیس فیصد تک ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے گی۔
انہی جائزوں کے مطابق جرمنی کے مشرقی صوبے سیکسنی انہالٹ میں سی ڈی یو بدستور پہلے نمبر پر رہے گی جبکہ مہاجرین مخالف پارٹی AfD کو اٹھارہ فیصد تک ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔
ان انتخابات سے پہلے ہفتہ بارہ مارچ کی شام انگیلا میرکل نے باڈن ورٹمبرگ میں ایک اختتامی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد کم کی جائے گی۔
اس کے علاوہ میرکل نے جرمنی میں موجود پناہ گزینوں کے سماجی انضام پر زور دیتے ہوئے کہا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ تارکین وطن اپنے سماجی انضمام کی کوشش کریں گے کیوں کہ یہ انہیں کی جانے والی کوئی پیش کش نہیں بلکہ ان کا فرض ہے۔‘‘