مہاجرین کی ملک بدری فوجی طیاروں کے ذریعے بھی، جرمن اخبار
21 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن روزنامے ’بِلڈ‘ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ برلن حکومت ایسا منصوبہ بنا رہی ہے، جس کے تحت اگر سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستیں مسترد ہو جاتی ہیں، تو انہیں جلد از جلد ملک بدر کرنے کے لیے فوجی ہوائی جہاز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مہاجرین کی بڑی تعداد جرمنی کا رخ کر رہی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو انتظامی مسائل کا سامنا بھی ہے۔
ناقدین کے مطابق اگر حکومت ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کو فوری طور پر واپس ان کے ممالک روانہ کر دیتی ہے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، تو مہاجرین کے اس بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکے گی۔ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے استعمال کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ حقدار مہاجرین پر زیادہ بہتر طریقے سے توجہ دی جا سکے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ وہ پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی درخواستوں پر غور و خوص کے عمل میں تیزی لانے کے علاوہ ڈی پورٹیشن یا ملک بدری کا عمل بھی تیز کرنا چاہتی ہے۔ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی پر میرکل کو اپنی سیاسی جماعت کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ ایسے مطالبے بھی سامنے آ چکے ہیں کہ برلن حکومت کو تعداد کے حوالے سے مہاجرین کی ایک حد کا تعین کر لینا چاہیے۔
روزنامہ بِلڈ نے جرمن صوبائی حکومتوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کو جلد از جلد نمٹانے کی کوشش میں ہیں جبکہ وہ ایسے افراد کو قبل از وقت کوئی معلومات فراہم نہیں کرنا چاہتیں جن کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ اس دوران ایسے افراد کو اس بابت بھی پہلے مطلع نہیں کیا جائے گا کہ انہیں جرمنی سے فوری طور پر ملک بدر کرنے کے لیے فوجی طیارے استعمال کیے جائیں گے۔
دوسری طرف برلن حکومت نے کہا ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ایکشن پلان طے نہیں کیا گیا جبکہ متعدد متبادل امکانات پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ بِلڈ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ جرمنی میں اس سال ستمبر تک ایک لاکھ 93 ہزار پانچ سو ایسے افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جن کے پاس بظاہر سیاسی پناہ حاصل کرنے کا کوئی قابل قبول جواز نہیں ہے۔
اس اخبار کے مطابق رواں سال اگست تک جرمنی کے مختلف صوبوں سے مجموعی طور پر گیارہ ہزار پانچ سو بائیس افراد کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے جبکہ گزشتہ برس ملک بدر کیے جانے والے ایسے افراد کی کل تعداد دس ہزار آٹھ سو چوراسی تھی۔
جرمن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کا تعلق زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ علاقوں سے ہے لیکن ان میں ایک تہائی ایسے بھی ہیں جو بلقان کے ممالک سے ’اقتصادی مقاصد کے تحت نقل مکانی‘ کر کے جرمنی پہنچے ہیں۔ ایسے غیر ملکیوں کو جرمنی میں مہاجرین کے طور پر قیام کی اجازت دیے جانے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔