1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میمو تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس

9 جنوری 2012

پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے ایک خط کے ذریعے خفیہ مراسلے (میمو) کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو اپنی کارروائی خفیہ رکھنے کی درخواست کی ہے۔

https://p.dw.com/p/13gVT
حسین حقانیتصویر: AP

کمیشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پاس معلومات ہیں تو وہ تحریری طور پر سربمہر لفافے میں کمیشن کے حوالے کر سکتے ہیں۔ میمو تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس پیر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت میں منعقد ہوا۔

ادھر امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اپنے مؤقف پر برقرار ہیں کہ خفیہ مراسلے کی تشکیل، اس کے مسودے کی تیاری یا اسے امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولن تک پہنچانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دیے گئے میمو تحقیقاتی کمیشن کے روبرو اپنے ابتدائی بیان میں حسین حقانی کا کہنا تھا کہ میمو کو ان سے غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے۔ انہیں میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے علاوہ میمو کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ حسین حقانی نے اپنا یہ بیان ریکارڈ کرانے سے قبل عدالت میں حلف بھی لیا کہ وہ جو کہیں گے صرف سچ کہیں گے۔

Nawaz Sharif
نواز شریفتصویر: AP

حسین حقانی کے علاوہ میمو کیس کی تحقیقات کے لیے درخواست گزار مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ بعد ازاں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ وہ ملکی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کمیشن میں پیش ہوئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے میمو کے معاملے میں عدالتی کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا، 'زرداری صاحب کا یہ جو حالیہ جملہ ہے کہ میں پارلیمنٹ کی بات مانوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پاکستان کی عدلیہ پر عدم اعتماد ہے اور یہ کمیشن جو بنا ہے اس پر بھی ایک طرح کا انہوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی رجحان آج حکومت کو یہ دن دکھا رہا ہے‘۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کمیشن کے سامنے پیش نہ ہو سکے۔ جبکہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے ایک خط کے ذریعے کمیشن کو اپنی کارروائی خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔ تاہم کمیشن کے چیئرمین قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی یا کوئی بھی اگر معلومات شیئر کرنا چاہتا ہے تو وہ بند لفافے میں بھجوا سکتا ہیں۔

دوسری جانب منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل اپنے بلیک بیری فون کی پرائیویسی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں اور اب حسین حقانی بھی ایسا ہی کریں۔

تاہم حسین حقانی کے وکیل زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل فی الحال اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوں گے،’اس مرحلے پر اپنا حق چھوڑنے پر اس لیے تبار نہیں کہ منصور اعجاز ملک میں نہ آنے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔ اس نے آج تک ویزا کے لیے درخواست نہیں دی۔ پھر میں نے آپ سب کو کہا تھا کہ وہ 9 جنوری کو نہیں آئے گا اور اس نے جو شرائط لکھ کر بھیجی ہیں وہ پورا ہونا ہی ممکن نہیں اور وہ بہانے تلاش کر رہا ہے‘۔

Asma Jahangir die Anwältin und Menschenrechtlerin aus Pakistan
عاصمہ جہانگیرتصویر: AP

بعدازاں اٹارنی جنرل نے کمیشن کو بتایا کہ حکومت نے منصور اعجاز کو پاکستان آنے کے لیے لندن ہائی کمیشن کو ویزہ جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ تاہم اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل 16 جنوری کو اس صورت پاکستان آ سکتے ہیں، جب کمیشن بلیک بیری کمپنی سے حسین حقانی اور منصور اعجاز کے کال اور پیغامات کا ریکارڈ منگوا لے۔

پیر کے روز کمیشن کی کارروائی میں آئی ایس آئی اور ایف آئی اے کے فرانزک ماہرین نے بھی کمیشن میں بیانات دیے۔ کمیشن نے ایف آئی اے کے فرانزک ماہر پر جرح کے بعد ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا۔

دریں اثناء پیر ہی کے روز حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے میمو کیس میں عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی ہے۔ اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق سپریم کورٹ کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا اختیار نہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں