میونخ حملہ: اسلحے سے متعلق قوانین میں سختی کا امکان
24 جولائی 2016جرمنی کے جنوبی شہر میونخ میں ہونے والے خون ریز حملے کے بعد ملک میں یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ کس طور اس طرح کے واقعے کو دوبارہ ہونے سے روکا جا سکے۔ چوں کہ اس حملے کے پیچھے مذہبی انتہا پسندی کا عمل دخل نہیں تھا، اور ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ ایک جنونی کی کارروائی تھی، برلن میں جرمن حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اسلحے سے متعلق قوانین میں مزید سختی لائی جائے۔
واضح رہے کہ جرمنی کے اسلحے سے متعلق قوانین پہلے ہی اچھے خاصے سخت ہیں۔ جرمنی میں صورت حال امریکا سے بہت مختلف ہے۔ امریکا میں جنونی افراد کی فائرنگ سے ہلاکتوں کے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں، تاہم جرمنی میں ایسا شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جرمنی میں اسلحے سے متعلق قوانین کو مزید سخت کر بھی دیا جائے تو غیر قانونی ذرائع سے اسلحہ حاصل کرنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جرمن وزیر داخلہ ٹوماس ڈے میزیئر نے ’بِلڈ ام زونٹاگ‘ جریدے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کس طرح قوانین کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔
نائب چانسلر زیگمار گابریئل نے بھی اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جرمنی میں اسلحے سے متعلق قوانین اتنے سخت ہیں کہ قانون سازوں کے لیے مزید کچھ کرنے کے لیےاب کیا ہے؟
جرمنی میں اسلحہ رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے شہریوں کو کئی امتحانات میں شرکت کرنا پڑتی ہے، اور کئی مراحل سے گزر کر ہی حکومتی عہدے دار اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ شہری کو اسلحہ دیا جائے یا نہیں۔
میونخ میں حملہ کرنے والے ایرانی نژاد جرمن کی ملکیت میں غیر قانونی اسلحہ تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ضمن میں کوئی بھی کارروائی کرنے کے لیے جرمن حکومت کو غیر قانونی اسلحہ مارکیٹ کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنا ہوگا۔ محض اسلحے سے متعلق پہلے ہی سے سخت قوانین کو مزید سخت کرنے سے مسئلہ شاید اس طور حل نہ ہو پائے جس طرح حکومتی اہل کاروں کی خواہش ہے۔