میونخ سکیورٹی کانفرنس، امریکی روسی اختلافات
1 فروری 2014یوکرائن میں جاری طاقت کی کشمکش ہو، شام کی خانہ جنگی ہو یا پھر ہتھیاروں میں کمی اور انسانی حقوق جیسے معاملات، دونوں جانب سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف نقطہ ہائے نظر کا اظہار کیا گیا۔
اگرچہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اُن کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف نے اصولی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک عمل کے عزم کا اظہار کیا تاہم دونوں نے ہی یہ بات بھی واضح کر دی کہ دونوں کے باہمی تعلقات میں جلد بہتری کی امیدیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے یوکرائن کی اپوزیشن کو مغربی دنیا کی جانب سے یک جہتی کا یقین دلایا اور کہا کہ یوکرائن کے عوام کو اپنے مستقبل کا تعین خود کرنے کا حق حاصل ہے:’’اس جنگ میں امریکا اور یورپی یونین یوکرائن کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘‘
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ نے اس امر کی تردید کی کہ یہاں معاملہ یوکرائن کی جانب سے آزادنہ فیصلے کا ہے۔ لاوروف نے کہا کہ دراصل نیٹو نے 2007ء ہی میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک نہ ایک روز یوکرائن کو اس مغربی دفاعی اتحاد کا رکن بنایا جائے گا:’’یہاں ایک فیصلہ مسلط کیا جا رہا ہے اور اس معاملے سے روس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘‘
نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے کہا کہ روس ایک ملک کو اپنی مرضی کے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ خود کرنے کا حق نہیں دے رہا:’’یوکرائن کو کسی بھی طرح کے بیرونی دباؤ کے بغیر اپنے یورپی راستے کے آزادانہ انتخاب کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘
تاہم روس کے ساتھ اختلافات سے قطعِ نظر نہ صرف نیٹو کے سیکرٹری جنرل بلکہ جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے بھی روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی بھرپور وکالت کی۔ شٹائن مائر نے کہا کہ روس کے ساتھ تعمیری تعلقات کا قیام جرمنی کے لیے ایک اہم فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ شام کی طرح کے تنازعات کو روس کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ ’ماسکو کے ساتھ مل کر ہی ایران کے ساتھ بھی کوئی سمجھوتہ کامیاب ہو سکتا ہے‘۔
اُدھر روسی وزیر خارجہ لاوروف کا کہنا یہ تھا کہ نیٹو اتحاد اُن کے ملک کے لیے خطرہ بن رہا ہے:’’ہماری مشرقی سرحدوں پر (نیٹو کے ) فوجی ڈھانچے میں توسیع کی جا رہی ہے۔‘‘ لاوروف کے مطابق نیٹو روسی سرحدوں کے بہت ہی قریب فوجی مشقیں کر رہا ہے۔
میونخ کی سکیورٹی کانفرنس کے اہم موضوعات میں عرب ملک شام کی خانہ جنگی بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے اس عرب ملک کے حالات کی ڈرامائی تصویر پیش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب لخضر براہیمی نے جمعے کو دیر گئے کہا کہ ’شام میں حالات خراب ہیں اور خراب تر ہوتے جا رہے ہیں‘۔ اُنہوں نے کہا کہ شام میں کئی شہر ویسے ہی تباہ ہو چکے ہیں، جیسے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران برلن تباہ و برباد ہو گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گتیریس نے کہا، ’مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شام کا تنازعہ روانڈا میں ہونے والے قتل عام کے بعد سے اپنی نوعیت کا بدترین انسانی بحران ہے‘۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شامی تنازعے کے فریقین پر زور دیا کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے مذاکرات کو آگے بڑھائیں۔ بان نے کہا کہ انہوں نے امریکا اور روس کے وزرائے خارجہ کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اُن پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کریں تاکہ امن مذاکرات پروگرام کے مطابق دس فروری سے جنیوا میں جاری رکھے جا سکیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میونخ میں اپنے خطاب میں امریکا کی جانب سے اپنے یورپی دوست ممالک میں جاسوسی کے اسکینڈل کے پس منظر میں امریکا اور یورپ کے درمیان تعلقات کو پھر سے مستحکم بنانے کی وکالت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا اور یورپ تبھی سب سے زیادہ طاقتور ہوں گے، جب وہ یک آواز ہو اپنا موقف بیان کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ عالمی آبادی میں اضافہ، دہشت گردی کے خطرات، موسمیاتی تبدیلیاں اور دنیا بھر میں مختلف طرح کے بحرانوں کے خلاف جنگ ایسے عالمگیر چیلنج ہیں، جن سے مل جُل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ کیری نے اس سلسلے میں امریکا اور یورپی یونین کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے کی بھی وکالت کی۔
اس سال میونخ کی یہ سالانہ سکیورٹی کانفرنس پچاس ویں مرتبہ منعقد ہو رہی ہے، جس میں دنیا بھر سے سربراہانِ مملکت و حکومت، چوٹی کے فوجی افسران، محققین اور مینیجر شرکت کر رہے ہیں۔