میونخ سکیورٹی کانفرنس، عالمی سیاست کا اسٹیج
17 فروری 2017جنوبی جرمن شہر میونخ خود کو بڑی خوشی سے ’دل والا عالمی شہر‘ کہلاتا ہے لیکن اس وقت یہ شہر ’سفارت کاری کا عالمی شہر‘ بھی بنا ہوا ہے، جیسا کہ ہر سال فروری میں ہوتا ہے۔ آج جمعہ سترہ فروری سے میونخ شہر کے وسط میں ’بائرِیشر ہوف‘ نامی لگژری ہوٹل میں وہ میونخ سکیورٹی کانفرنس (ایم ایس سی) شروع ہو رہی ہے، جو اس کانفرنس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک ’چھوٹے اجلاس‘ کی سی حیثیت دے دیتی ہے۔
دنیا بھر میں سلامتی امور سے متعلق فیصلے کرنے والے اہم ترین رہنماؤں کا یہ سالانہ اجلاس اس مرتبہ 53 ویں بار منعقد ہو رہا ہے، جس کے لیے تقریباﹰ چار ہزار پولیس اہلکار حفاظتی ڈیوٹی پر ہیں اور میونخ میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے قریب ایک ہزار صحافی بھی موجود ہیں۔
’’ورلڈ آرڈر ٹوٹتا ہوا‘‘، میونخ سیکورٹی رپورٹ
جرمنی میں ای یو اور امریکا کی مجوزہ ٹریڈ ڈیل کے خلاف مظاہرے
اس کانفرنس کے شرکاء کی طویل فہرست کے بارے میں اس اجتماع کے سربراہ وولف گانگ اِیشِنگر نے بتایا کہ اس سال اس کانفرنس میں کئی ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم بھی شرکت کر رہے ہیں، جن میں افغان صدر اشرف غنی، یوکرائن کے صدر پوروشینکو، پولینڈ کے صدر دُودا، عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی، ترک سربراہ حکومت بن علی یلدرم اور ایسی ہی کئی دیگر شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اس کانفرنس میں 47 ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شریک ہو رہے ہیں، جن میں سے روس کے سیرگئی لاوروف، برطانیہ کے بورس جانسن اور ایران کے جواد ظریف خاص طور ہر قابل ذکر ہیں۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں کم ازکم 30 دیگر ملکوں کے وزرائے دفاع بھی شرکت کر رہے ہیں، جن میں پاکستان، ترکی، برطانیہ، امریکا اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔
جنوبی جرمنی میں ہونے والی اس کانفرنس کا اہم ترین موضوع امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کا اقتدار میں آنا ہو گا، خاص طور پر اس پہلو سے کہ مغربی دنیا کی یہ سب سے بڑی طاقت ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں آئندہ مختلف سکیورٹی معاملات میں کیا پوزیشن اختیار کرتی ہے۔
کیا روس بھی اسد کا ساتھ چھوڑنے والا ہے؟
شام امن ڈیل کے نفاذ سے قبل ہی ناکامی کا خطرہ
اس کانفرنس میں سب کی نظریں اس لیے بھی امریکا پر لگی ہوئی ہوں گی کہ اس مرتبہ اس اجتماع میں ٹرمپ انتظامیہ کے کئی سرکردہ ارکان حصہ لے رہے ہیں، جن میں امریکی نائب صدر مائیک پینس، وزیر دفاع جیمز میٹس اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر جان کیلی نمایاں ہیں۔ مجموعی طور پر اس موقع پر میونخ میں ریپبلکن سیاستدان جان میک کین کے علاوہ کئی اور امریکی سینیٹرز بھی موجود ہوں گے۔
جرمن جریدے ’بین الاقوامی سیاست‘ کی خاتون چیف ایڈیٹر سِلکے ٹیمپل نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ امریکا نے اس مرتبہ اس کانفرنس کے لیے جو وفد بھیجا ہے، وہ ایم ایس سی میں شرکت کرنے والے سب سے بڑے وفود میں سے ایک ہے۔
سِلکے ٹیمپل کے بقول MSC کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہو گی کہ چند مخصوص آٹوکریٹک ریاستوں کے خود پسند رہنما یا ان کے نمائندے اس اجتماع سے اپنے لیے کیا پیغام لے کر واپس جاتے ہیں۔
میونخ کی اس کانفرنس میں اس مرتبہ مشرق وسطیٰ کے مختلف تنازعات کی بازگشت بھی ممکنہ طور پر کافی زیادہ اور اونچی ہو گی۔ اس دوران صرف شام، عراق اور یمن یا پھر شمالی افریقہ میں لیبیا ہی کے بارے میں بات چیت متوقع نہیں ہے بلکہ ایک نمایاں موضوع وہ دیرینہ فلسطینی اسرائیلی تنازعہ بھی ہو گا، جس کے خاتمے کے لیے ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز کی روایتی امریکی حمایت سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ابھی حال ہی میں پیچھے ہٹ چکے ہیں۔