میٹس بھی ٹرمپ کا ساتھ چھوڑ گئے
21 دسمبر 2018امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے استعفی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے امریکی افواج واپس بلانے کے فیصلے کا براہ راست ذکر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے روایتی اتحادیوں کے ساتھ امریکا کے قریبی تعاون کی اہمیت کی بات ضرور کی ہے، ’’اتحادیوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔‘‘ ٹرمپ نے جرمنی جیسے روایتی اتحادی ملک کو بھی اکثر ناراض کیا ہے۔
میٹس کے بقول، ’’آپ کو اپنے ہم خیال وزیر دفاع کا حق ہے۔ اسی وجہ سے میرا اس عہدے سے الگ ہونا ضروری ہے۔‘‘
ٹرمپ کے صدر بننے کے ساتھ ہی ان کی انتظامیہ میں کئی مرتبہ ردو بدل کی جا چکی ہے تاہم میٹس کا مستعفی ہونے کا فیصلہ کچھ خاص نوعیت اور اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ میٹس نے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب امریکا اپنی دفاعی حکمت عملی کو ایک نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے۔
ٹرمپ شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ساتھ افغستان میں تعینات امریکی دستوں میں کمی کا اعلان کر چکے ہیں۔ میٹس ٹرمپ کے ان فیصلوں کے مخالف ہیں اور ان کے استعفے کو ایک طرح کا احتجاج بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ اور میٹس کئی موضوعات پر ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے تھے اور صدر نے کئی مرتبہ اپنے وزیر دفاع کی تجاویز کو نظر انداز کیا ہے۔ مثال کے طور پر وزارت دفاع نے شام سے امریکی افواج کے انخلاء سے خبردار کرتے ہوئے اسے ایک بڑی عسکری غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ اسی طرح وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور سلامتی کے امور کے مشیر جان بولٹن نے بھی صدر کو اس اقدام سے منع کیا تھا۔
اس پیش رفت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا، ’’جنرل جم میٹس دو سال تک میری انتظامیہ میں بطور وزیر دفاع خدمات انجام دینے کے بعد اعزاز کے ساتھ فروری کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جم کے دور میں زبردست ترقی ہوئی ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کے دور میں اب تک وائٹ ہاؤس کے عملے میں درجنوں تبدیلیاں ہو چکی ہیں، جس میں ان کی کابینہ میں ردو بدل بھی شامل ہے۔ مارچ میں ٹرمپ نے ٹویٹر پر ریکس ٹلرسن کو وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ہی ٹرمپ نے اپنے وزیر انصاف جیف سیشنز کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ پھر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ چیف آف اسٹاف جان کیلی اور وزیر داخلہ رائن زنکے اس سال کے آخر تک اپنے اپنے عہدے چھوڑ دیں گے۔