میٹھا پان اور خلوص کی چاشنی
15 فروری 2021اس مرتبہ چائے کے ساتھ گرما گرم سموسے اور جلیبی بھی خوب کھائی۔ ہنسی مذاق، خوش گپیاں اور ایک دوسرے کا ساتھ واقعی ایک بہت ہی لطیف احساس ہے۔ ماحول بہت خوش گوار ہو گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں دستر خوان سجا دیا گیا۔ خالہ کے ہاتھ کا زعفرا نی پلاؤ، دم کا قیمہ، طارق روڈ کے مشہور شیرمال اور دودھ کی روٹی۔ ایسے میں میں بھی بگھارے بیگن، قیوامی سویاں بنائے بغیر نہ رہ سکی۔ یہ میں نے اپنی مرحومہ والدہ سے سیکھیں تھیں۔ آج کا دستر خوان کھانے کے ساتھ ساتھ اپنائیت سے بھی بھرپور تھا۔ سب نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ دل چاہ رہا تھا کہ لمحات تھم جائیں اور میں ان خوشیوں کو اپنے دل میں کہیں محفوظ کر کے منجمد سکر لوں۔
کھانے سے فراغت پا کر اب ماحول کافی خاموش ہو گیا۔ بیٹھے بیٹھے کسی کو میٹھے پان کی سوجھی۔ میٹھے پان کے بغیر تو واقعی محفل میں جان ہی نہیں آتی۔ ایک دم میرا ذہن ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔ بچپن میں جب نانا کے گھر جاتے، تب ماموں کے ساتھ ضد کر کے پان کھانے بھی جاتے تھے۔ ہم سب اچھلتے کودتے طارق روڈ کے اس پار کریم بھائی کا میٹھا پان کھانے جاتے تھے۔ اندھیری گلی، ایک چھوٹا سا پان کا کھوکا، اس میں لگی چھوٹی سی ٹیوب لائٹ اور پیچھے بڑے انہماک سے کتھے میں رنگے ہاتھوں سے مشین کی طرح تیزی سے پان لگاتے کریم بھائی۔
ہم بچوں کو دیکھ کر کریم بھائی بہت خوش ہو جاتے۔ ہم سب ان کو سلام کرتے اور وہ اپنے کتھئی ہاتھ اٹھا اٹھا کر ہمارے سلاموں کا جواب دیتے رہتے۔ ساتھ ساتھ تیزی سے چھوٹے چھوٹے پان کے پتے کتر کر ان پر سونف، گلقند اور کھوپرا لگا تے۔ ہم سب قطار بنا کر کھڑے ہو جاتے اور ایک ایک کر کے منہ کھولتے۔ کریم بھائی ہم کو اپنے ہاتھوں سے پان کھلاتے۔ ہم میں سے جو سب سے چھوٹا ہوتا، اس کو کریم بھائی علیحدہ سے کھوپرا کھلاتے۔ ہم کو پان کھلانے کے کریم بھائی کوئی پیسے نہ لیتے۔ ہمیشہ ماموں سے کہتے، '' ڈاکٹر صاحب! یہ سب میرے بھی بچے ہیں۔ مجھے پیسے دے کر شرمندہ نہ کیجیئے۔‘‘ وہ بڑے پرامن دن تھے اور لوگ بھی واقعتاﹰ سیدھے سادھے اور اچھے تھے ورنہ آج کے دور میں تو شاید ایسا سوچنا بھی ناممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کامیاب عورت اور ناکام ازدواجی زندگی
آج واقعی کریم بھائی کی ہم سب کو بہت یاد آئی۔ بہت دیر تک ہم نے ان کا خوب ذکر کیا۔ آج کے دور میں آگ لگے پان سے لے کر سونے کے ورق سے لیس پان دکانوں میں موجود ہیں اور پنواڑی پانوں میں ایک سے ایک جدت لے کر آ رہے ہیں۔ پانوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور لوگ ان جدید پانوں کو کھاتے وقت خاص اہتمام کرتے ہیں، یادگاری عکاسی بھی کرواتے ہیں۔ ایسے میں کریم بھائی کے میٹھے پان کو یاد رکھنا واقعی اچنبھے کی بات ہے۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد ہم نے ان کو یا د کیسے رکھا ہوا ہے؟ شاید واقعی قارون کے خزانے بھی لٹا دئیے جائیں تب بھی آپ خلوص کی قیمت نہیں ادا کر سکتے۔ کریم بھائی کے پانوں کا مزے میں سارے مصالحوں کے ساتھ ان کے خلو ص و محبت کی خوشبو بھی شامل ہے۔ اور یہی ان کی انفرادیت بھی ہے۔ وہ اپنے میٹھے پانوں کے ساتھ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔
آج بہت سالوں بعد ہم ایک بار پھر کریم بھائی کی پان کی دکان کی طرف چل دیے۔ اب عمر کے اس حصے میں پان کی دکان پر پیدل جانا معیوب لگ رہا تھا لہذا گاڑی نکالی گئی۔ سب نے منع بھی کیا کہ تم نہ جاؤ، تمہارے حصے کا پان ہم تمہیں گھر لا دیتے ہیں۔ لیکن میری خواہش کے احترام کو ملحوظ رکھا گیا اور مجھے ساتھ لے لیا گیا۔ میں کریم بھائی سے ملنے کا سوچ کر ہی بہت خوش تھی۔ ان کے میٹھے پان اور ناریل کا مزہ اور خوشبو آج بھی منہ میں محفوظ تھی۔ لاکھ دنیا بھر کے پان کھا لیے تھے لیکن کریم بھائی کے پان کے سامنے سب بے رنگ و بے مزہ تھے۔
بالآخر انتظار ختم ہوا اور ہم وہاں پہنچ ہی گئے۔ یہ گلی آج تک ویسی کی ویسی ہی تھی، سنسان اور اندھیری۔ کریم بھائی کا پان کا کھوکا اور اس میں لگی ٹیوب لائٹ اندھیرے میں امید کی کرن کی طرح جگمگا رہی تھی۔ اس وقت وہ دکان میں اکیلے کھڑے اپنی دھن میں پان لگا رہے تھے۔ موقع مناسب دیکھ کر میں گاڑی سے اتری اور ان کے تک پہنچی۔ بھائی نے ان کو زور سے سلام کیا۔
اس کو تو وہ پہچان گئے لیکن میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ میں نے بھی ان کو سلام کیا اور ان کو بتایا کہ میں ان کی بہن ہوں اور آپ کے میٹھے پان اور ناریل کھاتے کھاتے بڑی ہوئی ہوں۔ کریم بھائی کے سوالیہ تاثرات یک دم خوشی میں بدل گئے۔ فورا مڑے اور اب ایک بڑا سا میٹھا پان لگانے لگے۔ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا۔
گزرتے وقت کے ساتھ اب وہ کافی ڈھل گئے تھے۔ داڑھی بھی رکھ لی تھی۔ لیکن جو ان میں اب تک نا بدلہ تھا، وہ تھی ان کا خلوص اور ان کی محبت۔ وہ آج بھی ان کے میٹھے پان کی طرح بہت منفرد اور خوبصورت تھی۔ انہوں نے جلدی سے بھائی کے ہاتھ میں میٹھا پان پکڑایا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے کھاؤ بیٹا۔ میٹھا پان تو کھاؤ اور ایک جگمگاتی پنی میں لپیٹ کر ایک بڑا سا میٹھا پان میرے ہاتھ میں بھی تھما دیا۔
میں نے انہیں پیسے دینے چاہے تو صاف انکار کردیا۔ کہنے لگے، ''بہت بڑی ہو گئی ہو لیکن میرے لیے آج بھی میری بچی کی جیسی ہو، پیسے اپنے پاس رکھو۔ میں نے کبھی تم بچوں کو پان کھلانے کے پیسے نہیں لیے۔‘‘ میرے دل میں ہزاروں سوالات اور باتیں تھیں،جو مجھ کو کریم بھائی سے کرنی تھیں۔ لیکن شاید یہ ان کی دکان کے چلنے کا وقت تھا۔ گاہک آنا شروع ہو گئے تھے۔ انہوں نے آنکھ کے اشارے سے مجھے گاڑی کے اندر بیٹھنے کو کہا۔ تھوڑی دیر میں گاڑی میں انہوں نے سب کے لیے پان بنا کر لا دیے۔ پان منہ میں رکھتے ہی بچپن کی یادیں ایک بار پھر سے تازہ ہو گئیں۔ وہی خلوص سے بھرا میٹھا پان، جس کے دام دینے کی ہم میں آج بھی استطاعت نہیں تھی۔
اپنا پن ایک ایسا جذبہ ہے، جو شاید اب اپنوں میں بھی ناپیدی کی جانب گامزن ہے۔ ایسے میں کریم بھائی جیسے مہربان کسی نعمت سے کم معلوم نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ گزرے یہ مختصر سے لمحات اپنے اندر اپنےپن کی ایک طویل داستان سموئے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ واقعی نایاب ہیں۔ پان کھا کر ہم سب نے گھر کی راہ لی لیکن ان کے ساتھ گزارے یہ چند لمحات ہمارے دل میں ایک خوب صورت یادداشت کی مانند نقش ہو گئے ہیں۔