میٹھی خوراک کا کڑوا اثر، بھارت اور بنگلہ دیش میں بڑھتا ہوا
14 مئی 2019''یہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی‘‘، یہ 17 سالہ روہن سارِن کے الفاظ ہیں جو نئی دہلی کے ایک اسکول کا طالب علم ہے۔ نیلے اور بھورے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس کے دوستوں کو معلوم ہے کہ روہن کو ہر وقت مخصوص طبی آلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یہ اکثر دیکھتے ہیں کہ جب روہن کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے تو اسے کیا کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسکول بیگ سے انسولین پین نکالتا ہے اور خود کو انجیکشن لگاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ توانائی فراہم کرنے والی غذا کا بھی استعمال کرتا ہے تاکہ اس کے خون میں شوگر کی سطح بہتر ہو سکے۔ سارِن کو دن میں چار مرتبہ انسولین کا انجیکشن لگانا پڑتا ہے۔
’صحت عامہ پر بڑھتا ہوا دباؤ‘
’’انٹرنیشنل ڈیابیٹیز فیڈریشن‘‘ کے اندازوں کے مطابق بھارتی آبادی کا 8.8 فیصد ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کے حامل اس ملک میں یہ کم دکھائی دینے والی شرح دراصل ایک بڑی تعداد یعنی 115 ملین افراد بنتی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہیں یہ ابھی معلوم ہی نہیں کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس طرح بھارت دنیا میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا بالغ افراد کی دوسری سب سے بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔ پہلے نمبر پر چین ہے۔
بھارت کی میڈیکل ریسرچ کونسل (ICMR) کی طرف سے اپنی ایک تحقیق’انڈیا ڈیابیٹیز اسٹڈی‘ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ذیابیطس کے علاوہ موٹاپا، ہائپر ٹینش اور میٹابولک سینڈروم جیسی غیر متعدی بیماریاں صحت عامہ پر ایک بڑا اور بڑھتا ہوا بوجھ بنتی جا رہی ہیں۔
اس کی وجوہات کیا ہیں؟ معاشی ترقی نے بھارتیوں کے لائف اسٹائل کو بدل دیا ہے۔ لوگ اب باہر سے زیادہ کھانا کھاتے ہیں اور روایتی سبزیوں پر مشتمل کھانے کی بجائے فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں جیسے برگر، پیزا اور دیگر آسانی سے دستیاب خوراک۔ برگر کنگ نے جب نئی دہلی میں اپنا پہلا ریسٹورینٹ کھولا تو اس کے باہر لوگ قطاریں لگائے نظر آئے۔ یہ تبدیلیاں موٹاپے میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔
ایک ’خاموش‘ بیماری
ذیابیطس کے مرض کی اقسام کے بارے میں جاننا اہم ہے۔ زیادہ تر بھارتی باشندے ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہیں، جو عام طور پر اس وقت لاحق ہوتی ہے جب کسی شخص کے وزن کی حد جسم کی اُس صلاحیت سے تجاوز کر جاتی ہے جو انسولین کو پیدا کرتی ہے یا جو خوراک کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے انسولین کو استعمال کرتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں تاہم جسم قدرتی طور پر ہی انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کافی زیادہ لوگوں میں اس مرض کی تشخیص ہی نہیں ہوتی۔ ’انٹرنیشنل ڈیابیٹیز فیڈریشن‘ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایشیا میں نصف کے قریب ایسے افراد جو ذیابیطس میں مبتلا ہیں وہ اس بارے میں جانتے ہی نہیں۔ غیر تشخیص شدہ اور علاج کے بغیر ذیابیطس جان لیوا ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری بھارت اور بنگلہ دیش میں موت کی 10 بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
’کیتھولک ہیلتھ ایسوسی ایشن آف انڈیا‘ کے ڈائریکٹر سمیر والسنگکار کہتے ہیں، ’’ذیابیطس ایک خاموش بیماری ہے، اس کی مخصوص علامات جیسے پیاس لگنا یا تھکن بہت زیادہ واضح نہیں ہوتیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’دیگر ممالک میں 40 برس سے زائد ہر شہری کا باقاعدگی سے ذیابیطس کا ٹیسٹ ہوتا رہتا ہے، لیکن بھارت میں ایسا نہیں۔ ہمارے صحت عامہ کے نظام پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ہے، مناسب طبی آلات اور ادویات ہی دستیاب نہیں ہیں جن کے ذریعے لوگوں میں زبابیطس کی تشخیص یا طویل المدتی طور پر اس کا علاج کیا جائے۔ بہت سارے کیسز میں ذیابیطس کی نہ تو تشخیص ہوتی ہے اور نہ ہی علاج۔ جلد یا بدیر یا تو وہ بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں، کسی جسمانی عضو سے محروم ہو جاتے ہیں یا پھر گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش - بدترین مثال
بھارت اکیلا نہیں ہے۔ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہے۔ آج بنگلہ دیش میں 11 ملین افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 2045ء تک یہ تعداد بڑھ کر ایک تہائی تک ہو جائے گی۔ بنگلہ دیش کے ایک ڈاکٹر، ایکٹیوسٹ اور ’’رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ‘‘ جیتنے والے ظفر اللہ چوہدری اس کی وجہ ’’کھانے پینے کی عادات، ورزش نہ کرنا اور سگریٹ نوشی‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مثال کے طور پر دیہی علاقوں میں مچھلی کمیاب ہو گئی ہے کیونکہ انہیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے اسے فروخت کرنا پڑتا ہے اور خوراک کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے: ’’نتیجے کے طور پر لوگ زیادہ کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں۔ لہٰذا وہ چاول زیادہ اور سبزیاں کم کھاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی بدترین چیز جو ہو رہی ہے وہ کوکا کولا اور دیگر انرجی ڈرنکس کا استعمال بڑھنا ہے۔ یہ ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے اور گراں قیمت ہے۔‘‘
اس وقت 77 سالہ ظفر اللہ چوہدری نے 1972ء میں بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والی ایک تنظیم ’’گونوشاستھایا کیندرا‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ چوہدری مزید کہتے ہیں، ’’یہ انرجی ڈرنکس، کولا، سگریٹ نوشی اور جسمانی مشقت کی کمی، وہ اس بات کا ادراک ہی نہیں رکھتے، چھوٹے چھوٹے فاصلوں کے لیے بھی وہ موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں۔ ہمارے شہر کے اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں۔ بچے نہ تو کھیلتے ہیں اور نہ ہی کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔‘‘
ایک مقامی اخبار ڈھاکا ٹریبیون نے 2017ء میں رپورٹ کیا تھا کہ بنگلہ دیش کی فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے ملک میں دستیاب مختلف انرجی ڈرنکس کے نمونوں کی جانچ کی تھی: ’’زیادہ تر انرجی ڈرنکس میں 54 گرام چینی موجود تھی، جو 13.5 چائے کے چمچوں کے برابر چینی بنتی ہے۔‘‘
چوہدری کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ معلومات اور صحت سے متعلق تعلیم کو عام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر دیہی علاقوں کے لوگوں کو تربیت فراہم کی جانے کی ضرورت ہے۔
روہِن اپنی عادات بہتر بنا رہا ہے
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والا نوجوان روہِن سارن ذیابیطس کی تشخیص کے بعد سے اپنے عادات میں تبدیلی لا رہا ہے۔ اس نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ اب تقریباﹰ ہر صبح کرکٹ کھیلنے جاتا ہے۔ سات برس قبل اس میں اس بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد سے اب وہ میٹھی چیزوں اور سافٹ ڈرنکس وغیرہ سے پرہیز کرنا سیکھ چکا ہے۔ اس نے صورتحال کو تسلیم کر لیا ہے۔
ا ب ا / ک م (وژیول جرنلزم ٹیم)