’’میں کوالیفائڈ کرکٹر ہوں‘‘ محسن حسن خان
10 اکتوبر 2011چھپن سالہ محسن خان کی تقرری پر سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ وہ عصر حاضر کے دیگر کوچز کی طرح کوالیفائیڈ کوچ نہیں ہیں۔ ریڈیو ڈوئچے ویلے کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کی جانب سے اڑتالیس ٹیسٹ اور پچھتر ون ڈے کھیلنے والے محسن حسن خان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں کوچنگ کے لیے کتابیں پڑھنا ضرروی نہیں بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا وسیع تجربہ ہونا چاہے، جو دس برس تک پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد ان کے پاس ہے۔
محسن نے جذباتی انداز میں کہا کہ اگر بعض لوگ انہیں کوالیفائیڈ کوچ نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں مگر انہیں معلوم ہے کہ پاکستان ٹیم کو ایک ایسے ہی کوچ کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول کرکٹ کمپیوٹر پر نہیں بلکہ گراؤنڈ میں کھیلا جانے والا کھیل ہے اس لیے، جو کرکٹر خود کھیل کے نشیب فراز سے نہ گزرا ہو وہ ٹیم کوکیا بتا سکے گا۔
1982ء میں لارڈز پر ڈبل سینچری بنانے والے پہلے پاکستانی کرکٹر محسن خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو صرف منصوبہ بندی اور ذہنی استقامت کی ضرورت ہے۔’’ ہمارے کھلاڑیوں کے ٹیکنیکل مسائل زیادہ نہیں۔ میں نے اپنےکیریئر میں جس طرح کی مشکلات کا مقابلہ کیا کھلاڑیوں کو بھی یہی کچھ باور کرانے کی کوشش کروں گا۔ ٹیم کے ہرکھلاڑی کو نتیجے سے قطع نظر اپنی سو فیصد کوشش کرنا ہوگی۔‘‘
پاکستانی ٹیم کے کوچ کا عہدہ حال ہی وقار یونس کے مستعفیٰ ہونے کے بعد خالی ہوا تھا اور اگلے ہفتے سے متحدہ عرب امارات میں سری لنکا کے خلاف شروع ہونے والی تین ٹیسٹ، پانچ ون ڈے اور ایک ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کی سیریز محسن خان کی بین الاقوامی کرکٹ میں کوچ کی حیثیت سے پہلی آزمائش ہو گی۔
اس بارے میں محسن خان کا کہنا تھا دونوں ٹیموں کے لیے کنڈیشنز اور وکٹیں ایک جیسی ہوں گی۔ ’’سری لنکا ہماری نسبت اپنے ملک میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے کافی متوازن ٹیم ہے۔ وہ مشکل حریف ہے اسے ہرانے کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ میں دفاعی حکمت عملی پر یقین نہیں رکھتا۔ اس لیے امارات میں میری خواہش ہوگی ٹیسٹ سیریز میں نتیجہ خیز میچز ہوں‘‘۔
محسن خان کےعلاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے سابق ٹیسٹ کرکٹر کرنل نوشاد علی کو ٹیم کا نیا منیجر اور محمد الیاس کو عبوری سلیکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ان تبدیلیوں کے بعد ایک عام تاثر یہ ہے کہ چیف سلیکٹر محسن خان کے ٹیم کا کوچ بننے سے پاکستانی کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم میں زیادہ دباؤ کا سامنا رہے گا مگر محسن خان اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ محسن کا کہنا تھا کہ ظہیر عباس اور عامر سہیل جیسے ماضی کے نامور کرکٹرز نے کہا ہے کہ جب کھلاڑی اس بات کو جانتے ہوں گے کہ کوچ ہی چیف سلیکٹر بھی ہے تو وہ زیادہ محنت کریں گے کیونکہ دوسری صورت میں انہیں علم ہوگا کہ وہ ٹیم سے باہر کر دیے جائیں گے۔ انہوں نےکہا کہ انہوں نے خود چیئرمین پی سی سی بی سے چیف سلیکٹر کے عہدے سے عارضی دستبرداری کی خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ کہ یہ دونوں الگ الگ مشکل ذمہ داریاں ہیں اور اگر وہ کوچ کے طور پر آگے چل کر کام نہ کر سکے تو واپس سلیکشن کمیٹی میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ پی سی بی نے ان کی یہ درخواست منظور کر لی ہے۔
سابق کپتان رمیزراجہ کا خیال ہے کہ اسپاٹ فکسنگ مقدمے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کی بدلی ہوئی دنیا میں محسن حسن خان سہل طریقے سے کام کر سکیں گے۔ رمیز کا کہنا تھا کہ اسپاٹ فکسنگ کے واقعہ سے پاکستانی کھلاڑیوں میں کافی آگاہی آئی ہے۔ ٹیم میں ماضی جیسے مشکل کردار بھی نہیں رہے اس لیے نئے کوچ کے لیےخوش اسلوبی سےکام کرنا مشکل نہ ہو گا۔
دوسری جانب محسن خان کی ہی سربراہی میں قائم سلیکشن کمیٹی نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے جواں سال بیٹسمین عمر اکمل کو نظر انداز کردیا ہے۔ اپنے کیریئر میں پہلی مرتبہ ٹیم سے ڈارپ ہونے والے عمر اکمل سلیکٹرز کے اس فیصلے سے دلبرداشتہ ضرور ہیں مگر وہ سلیکشن کمیٹی کوغلط ثابت کرنے کے لیے بھی اتنے ہی پرعزم ہیں۔ عمر اکمل کا کہنا تھا کہ انہیں ڈراپ ہونے کی توقع نہیں تھی مگر اب ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کریں گے اور جلد ہی ٹیسٹ ٹیم میں کم بیک کریں گے۔ عمر نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا ہی ان کی ترجیح ہے اس لیے وہ واپسی کے لیے بھرپور محنت کرتے رہیں گے۔
سری لنکا کے خلاف اٹھارہ اکتوبر سے ابو ظہبی میں شروع ہونے والی سیریز کی تیاری کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کا تربیتی کیمپ منگل سے لاہور میں شروع ہو رہا ہے۔ ڈینگی بخار کے خطرے کے پیش نظرصبح اور شام کی بجائے کھلاڑیوں کی ٹریننگ روزانہ دوپہر کے سیشن تک محدود رہے گی۔
رپورٹ : طارق سعید، لاہور
ادارت : عدنان اسحاق