1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی: زرداری اور من موہن سنگھ کی ملاقات

8 اپریل 2012

پاکستانی صدر آصف علی زرداری اتوار کو ایک روزہ دورے پر بھارت میں ہیں، جہاں اُنہوں نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ظہرانے پر ملاقات کی ہے۔ بعد ازاں وہ اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری بھی دیں گے۔

https://p.dw.com/p/14ZUZ
تصویر: AP

اِس دورے کے آغاز پر زرداری نے دارالحکومت نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی رہائش گاہ پر اُن کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد دونوں رہنما صحافیوں کے سامنے آئے۔ اس موقع پر اپنے ایک مختصر بیان میں من موہن سنگھ نے کہا، ’ہم دونوں کی یہ مشترکہ خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں اور معمول پر آ جائیں‘۔

من موہن سگھ نے مزید کہا: ’’ہمیں کئی ایک بحرانوں کا سامنا ہے اور ہم اِن تمام بحرانوں کے عملی اور حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کے خواہاں ہیں اور یہ وہ پیغام ہے، جو صدر زرداری اور مَیں دینا چاہتے ہیں۔‘‘

اِس موقع پر زرداری نے بھارتی سربراہِ حکومت کے ساتھ اپنی بات چیت کو سود مند قرار دیا اور کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے:’’ہم نے اُن تمام موضوعات پر بات کی ہے، جن پر ہم بات کر سکتے تھے۔‘‘

من موہن سنگھ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی سربراہِ مملکت نے اُنہیں پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے، جسے اُنہوں نے قبول کر لیا ہے اور جس کی تاریخیں ابھی طے کی جائیں گی:’’مَیں (زرداری کے ) اِس دورے کے نتائج سے بہت مطمئن ہوں۔‘‘

تجزیہ نگار پہلے ہی اس توقع کا اظہار کر رہے تھے کہ اس ملاقات میں زرداری سال کے اواخر تک بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیں گے اور باہمی تجارتی تعلقات کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں بھی کوئی اہم پیشرفت ہو سکتی ہے۔ بھارت نے 1996ء ہی میں تجارت کے شعبے میں پاکستان کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دے دیا تھا جبکہ پاکستان نے گزشتہ برس بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی ساتھی ملک قرار دینے پر اصولی رضامندی ظاہر کر دی تھی۔

بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کر لی ہے
بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کر لی ہےتصویر: AP

2005ء کے بعد کسی پاکستانی سربراہِ مملکت کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے، جسے ’نجی نوعیت کا‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگار البتہ ایٹمی طاقت کے حامل ان ہمسایہ ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات کو سفارتی لحاظ سے بے حد اہم قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کی ایک اور علامت ہے لیکن ساتھ ساتھ بھارت میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا موضوع بدستور ایک بڑا مسئلہ بھی ہے۔

بھارت 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت پسندانہ حملوں کی وجہ سے بدستور پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ان حملوں کے پیچھے کارفرما عناصر کو عدالت کے کٹہرے میں لائے۔ بھارت ان حملوں کے لیے کالعدم عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کو قصور وار قرار دیتا ہے، جسے سخت گیر موقف کے حامل حافظ سعید نے تشکیل دیا تھا۔ حکومت پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اُس کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ جن کی بناء پر حافظ سعید کو سزا دی جا سکے۔

ہفتے کے روز لاہور کے ایک دورے کے موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا، ’سعید کے معاملے میں میرا موقف حکومت کے موقف سے مختلف نہیں ہے‘۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق من موہن سنگھ اور زرداری کی ملاقات دونوں ممالک کے بد اعتمادی سے عبارت تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔

اِس دورے کے موقع پر ایک بڑا وفد بھی پاکستانی صدر کے ہمراہ ہے، جس میں وزیر داخلہ رحمان ملک بھی شامل ہیں۔

زرداری اب نئی دہلی سے 350 کلومیٹر جنوب مغرب کی جانب واقع درگاہ کے لیے پرواز کر جائیں گے۔

aa/at (AFP,Reuter)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید