نئی دہلی میں داخل ہونے والی بھاری گاڑیوں پر ٹول ٹیکس
9 اکتوبر 2015بھارت کی حکومتوں پر مسلسل اس بارے میں تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ 17 ملین کی آبادی والے نئی دہلی شہر میں قائم صنعتوں اور وہاں کی انتہائی مہلک ٹریفک کے سبب پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے سد باب میں ناکام رہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق نئی دہلی کا شمار دنیا کے ماحولیاتی آلُودگی کے بد ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کی درخواست پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہلکی کمرشل گاڑوں پر 700 روپے ٹول ٹیکس اور 1,300 روپے بڑے ٹرکوں پرٹول ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ آئندہ پیر کو اپنا سرکاری حکمنامہ اور شیڈول جاری کرے گی تاہم سپریم کورٹ کے مطابق اس فیصلے پر تجرباتی طور پر چار ماہ کے لیے عملدرآمد ہوگا۔ اس ٹول ٹیکس کے لاگو ہونے کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا ہے۔
مبصرین امید کر رہے ہیں کہ اس اقدام سے نئی دہلی کی آب و ہوا میں اس سال موسم سرما سے واضح بہتری دیکھنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ سردیوں کے موسم میں بھارت خاص طور سے نئی دہلی کا معیار زندگی خراب سے خراب تر ہو جاتا ہے۔
بھارت کے سائنس اور ماحولیات کے مرکز CSE کے مطابق ٹرکوں پر نئی دہلی میں دن کے وقت داخلے کی پابندی عائد ہونے کے سبب رات کو وہاں ہزاروں بھاری گاڑیوں کا تناتا بندھا رہتا ہے جس کے سبب سترہ ملین نفوس پر مشتمل اس شہر میں رات بھر میں دھواں انتہائی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
سائنس سینٹر کے مطابق نئی دہلی میں ہر روز 52 ہزار کمرشل گاڑیاں داخل ہوتی ہیں جبکہ حکومت کا اندازہ اس سے دوگنا ہے۔ بہت سے ٹرک ڈرائیور ٹول ٹیکس بچانے کے چکر میں ہائی وے کا رستہ اختیار کرنے کی بجائے نئی دہلی شہر کے اندر سے گزرتے ہیں۔
گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی طرف سے جاری کردہ ایک مطالعاتی جائزہ رپورٹ میں دنیا کے ایسے 1600 شہروں کی فہرست مرتب کی گئی تھی شامل تھی اور اِس فہرست کے مطابق چینی دارالحکومت بیجنگ کی میں مہلک ذرات PM 2.5 کی موجودگی سب سے زیادہ ہے۔ PM 2.5 دمے، پھیپھڑروں کی بیماریوں، کینسر یا سرطان اور دل کے عارضوں کا سبب بنتے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت کی ماحولیاتی امور کی عدالت نے سال رواں کے اوائل میں ہی ڈیزل سے چلنے والی دس سال سے زیادہ پرانی گاڑیوں پر پابندی کا حکم جاری کیا تھا تاہم اس پر اب تک اطلاق نہیں ہوا ہے۔