نئی ہلاکتیں: سینکڑوں کشمیری شہریوں کی بھارتی دستوں سے جھڑپیں
17 ستمبر 2020پولیس اور عینی شایدین نے بتایا کہ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا، جب آج جمعرات سترہ ستمبر کو علی الصبح سینکڑوں کی تعداد میں مقامی شہریوں نے انسداد د ہشت گردی کی ذمے دار پولیس اور وفاقی نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں مزید چار ہلاکتوں کے بعد احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
چار ہلاک شدگان میں سے تین مبینہ طور پر مقامی شدت پسند بتائے گئے ہیں جبکہ چوتھی ایک خاتون خانہ تھی، جو بھارتی سکیورٹی حکام کے مطابق شہر کے ایک رہائشی علاقے میں ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئی۔ کشمیر پولیس کے مطابق یہ کارروائی شہر کے ایک رہائشی علاقے میں مبینہ شدت پسندوں کے چھپے ہونے کی خفیہ اطلا ع ملنے کے بعد نصف شب کے وقت شروع کی گئی تھی۔
'کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ‘
ان ہلاکتوں کے بعد مقامی پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا، ''تینوں شدت پسند بظاہر مقامی عسکریت پسند تھے، جو پولیس اور سکیورٹی دستوں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ اس دوران ایک نوجوان گھریلو عورت بھی فائرنگ کے تبادلے کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئی۔‘‘
پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دل باغ سنگھ نے آج سری نگر میں صحافیوں کو بتایا، ''پولیس کو سری نگر کی اس نوجوان خاتون کی موت پر گہرا افسوس ہے۔‘‘ مقامی میڈیا کے مطابق بھارتی سکیورٹی دستوں نے بٹامالو نامی علاقے میں ایک گھر میں متعدد شدت پسندوں کے چھپےہونے کی اطلاع ملنے پر علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ پھر جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ وہاں مسلح کارروائی میں ایک خاتون سمیت چار افراد مارے گے ہیں، تو سینکڑوں کی تعداد میں مقامی باشندے احتجاج کرتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔
'پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے
سری نگر میں یہ مظاہرین انتہائی مشتعل تھے اور انہوں نے بھارتی سکیورٹی دستوں پر پتھراؤ بھی شروع کر دیا تھا۔ اس پر مسلح فورسز نے ان کے خلاف آنسو گیس کا استعمال بھی کیا اور پیلٹ گنوں کا بھی۔
موقع پر موجود فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی ایک فوٹوگرافر نے بتایا کہ یہ مظاہرین 'پاکستان زندہ باد‘ اور 'ہم آزادی چاہتے ہیں‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منشتر کرنے کی کوشش کے دوران کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔
مبینہ شدت پسندوں سے مسلح تصادم عام، لیکن سری نگر میں نہیں
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں علیحدگی پسندی کی موجودہ تحریک کو اب کئی سال ہو چکے ہیں اور اس دوران اب تک بیسیوں ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ کشمیر میں ایسے تصادم زیادہ تر وادی کے مختلف شہروں میں تو ہوتے رہتے ہیں مگر دارالحکومت سری نگر میں ایسی خونریزی اور ہلاکتیں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ سری نگر میں گزشتہ رات سے پہلے اپنی نوعیت کا ایسا آخری واقعہ جون کے مہینے میں پیش آیا تھا، جب بھارتی دستوں کے ہاتھوں تین مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے تھے اور کم از کم 15 مکانات بھی تباہ ہو گئے تھے۔
سوپور میں عرفان ڈار کی موت
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں میں ہلاکتوں کے واقعات اتنے تواتر سے پیش آتے ہیں کہ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہے، جب ایسا نہ ہوتا ہو۔
سری نگر میں کل رات چار افراد کی ہلاکت سے صرف ایک روز قبل کشمیر کے شمال مشرقی قصبے سوپور میں بھی عرفان احمد ڈار نامی ایک چھبیس سالہ مقامی باشندہ اس وقت مارا گیا تھا، جب اسے پولیس کی طرف سے حراست میں لیے جانے کو ابھی چند گھنٹے ہی ہوئے تھے۔
عرفان ڈار کے اہل خانہ کے مطابق ڈار کو پولیس نے تشدد کر کے ہلاک کیا تھا اور بعد میں اس کی لاش ایک کھلی جگہ پر پھینک دی گئی تھی۔
اس کے برعکس کشمیر پولیس کے مطابق عرفان ڈار مبینہ طور پر بھارت مخالف کشمیری عسکریت پسندوں کا ایک 'زیر زمین ساتھی‘ تھا، جو اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا تھا اور مبینہ طور پر بعد میں ایک کھلی جگہ پر مردہ پایا گیا تھا۔
م م / ک م (اے ایف پی، اے پی)